الوقت - اوباما انتظامیہ کے ایک سابق عہدیدار کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاوس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایران اور روس اس حد تک شام کی حمایت کریں گے اور بشار اسد اتنے وقت تک اقتدار میں باقی رہ سکیں گے۔
امریکی حکومت کے سابق عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکی صدر باراک اوباما نے بحران کے آغاز میں یہ تصور نہیں کیا تھا کہ ایران اور روس اس حد تک شام کی حمایت کریں گے۔
امریکا کے اس سابق عہدیدار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر امریکی تجزیہ نگار گریٹ پورٹر کو بتایا کہ شام میں جھڑپوں کے آغازکے وقت، واشنگنٹن نے یہ سوچا تھا کہ بشار اسد کی حکومت کا سقوط ممکن ہے اور جلد ہی بشار اسد کی حکومت گر جائے گی۔
میڈل ایسٹ آئی نامی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے اس بیان میں دعوی کیا کہ اوباما، ابتداء میں امریکی کی براہ راست مداخلت میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور اس کے بعد سعودی عرب، قطر اور ترکی کے دباؤ میں لیبیا سے شام ہلکے ہتھیار بھیجنے کی اجازت دی۔
اس رپورٹ کے مطابق جب واشنگٹن شام کے بارے میں پالیسی بنا رہا تھا تو اس نے ایران کو نظر انداز کر دیا تھا۔ پورٹر لکھتے ہیں کہ اوباما کے مشیروں نے سوچا کہ ایران اور روس، بشار اسد کو اقتدار میں باقی رکھنے کے لئے صرف محدود مدد کریں گے۔
امریکی حکام کے مطابق، اوباما نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایران اور روس، شام میں براہ راست فوجی کردار ادا کریں گے اور جنگ کے دوران اسی بڑی غلطی احساس ہوا۔
تجزیہ نگار اس رپورٹ میں کہتے ہیں کہ حزب اللہ کی جانب سے القیصیر شہر کی آزادی کے بعد ہی اوباما انتظامیہ کی غلطیاں واضح ہوگئیں لیکن وائٹ ہاوس نے اپنی غلطی پر نظر ثانی کرنے کے بجائے، شام میں موجود مسلح گروہوں کو مزید مسلح کرنے کا فیصلہ کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی مزید بحران میں گرفتار ہوتا گیا ۔