الوقت - چھتیس برسوں کے بعد ایک مرتبہ پهر سیکورٹی کونسل میں ایک بل پاس ہوا ہے جس میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور ان کی مذمت کی گئی ہے. اس تاریخی قرارداد میں جو امریکا کے ویٹو کے بغیر اسرائیل کے خلاف منظور کر لیا گیا، اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے که وه فلسطین کی سرزمین پر جس میں بیت المقدس بھی شامل ہے، نئی بستیاں بنانا بند کر دے۔ اس قرارداد میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے که اسرائیلی کالونیوں کی تعمیر دو ریاستوں کے درمیان مسئلے کے پر امن راه حل کے لئے بہت خطرناک اور صلح کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے" اس سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاهو نے امریکی صدر باراک اوبا سے مطالبہ کیا تھا که وه اس قرارداد کو ویٹو کردیں ۔
اس قرارداد کا مسودہ مصر کی جانب سے پیش کیا گیا تھا اور اسے جمعرات کے روز جنرل اسمبلی میں پیش کیا جانا تھا لیکن امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ٹیلیفونی گفتگو کی تاکہ مسئلہ کو آگے بڑھنے سے روکا جائے۔
اس قرارداد کا مسودہ جمعے کو نیوزی لینڈ، ملائیشیا اور سینیگال جو اس مسودے کی تدوین میں شریک تھے، جیسے ممالک کی کوششوں سے دوباره سیکورٹی کونسل میں پیش کیا گیا۔ سیکورٹی کونسل کے پندره میں سے چوده ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا لیکن امریکا نے ہمیشہ کی طرح اس کو ویٹو نہیں کیا۔
اس قرارداد کی منظوری نے صیہونی حکام کے غصے میں مزید اضافہ کر دیا، یہاں تک که صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس بل کو شرم آور اور "اسرائیل مخالف" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد پر کبھی بھی عمل درآمد نہیں ہو پائے گا۔
اسرائیلی حکام نے نیوزی لینڈ اور سینیگال جیسے ممالک میں تعینات اپنے سفیروں کو مشورے کے لئے بلا لیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے سینیگال کے وزیرخارجہ سے تین ہفتے بعد ہونے والی ملاقات بھی ملتوی کر دی۔ ساتھ صیہونی حکام نے اعلان کر دیا ہے کہ اس کے بعد اسرائیل سینیگال کی ہر طرح کی مدد بند کر دے گا۔
نیتن یاہو نے اسرائیلی بستیوں اور کالونیوں کی تعمیرات کے سلسلے میں اوبامہ انتظامیہ کی کارکردگی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اوباما انتظامیہ نے پس پردہ اس قرارداد کی حمایت کی ہے لہذا اسرائیل اس بات کا انتظار کر رہا کہ امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی کانگریس میں موجود اپنے حامیوں کی مدد سے اس قرارداد کے تخریبی اثرات کو کلعدم قرار دے سکے۔
بہرحال اس قرارداد کی منظوری، امریکا کی موجودہ حکومت اور اسرائیل کے درمیان اختلافات کا سبب بنے اس سے کہی زیادہ صیہونی حکومت اور امریکا کی اگلی حکومت کے درمیان اختلافات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس لئے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ صیہونی حکومت اس قرارداد پر عمل درآمد کرے گی. جیسا که امریکا نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسرائیل مخالف اس قرارداد کی تنقید کرتے ہوئے کہا که ان کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد اس قرارداد میں تبدیلی کی جائے گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس سے پهلے بھی اوباما انتظامیہ سے اس قرارداد کو ویٹو کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں لیکن اوبامہ انتظامیہ نے جو اپنے آخری ایام گزار رہی ہے، اس مطالبے کو قبول نہیں کیا اور صرف سیکورٹی کونسل میں اس کے خلاف ووٹ دے کر کنارہ کشی کر لی۔ دوسری جانب امریکا کی نئی حکومت کی جانب سے اس قرارداد کی مخالفت اور اس کا رد عمل پیشنگوئی کے قابل ہے تاکہ یہ بتایا جائے کہ یہ قرارداد اوباما کے دور اقتدار میں منظور ہوئی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو سیکورٹی کونسل کے فیصلوں کو کم اہیمت دینے والے شخص کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اس سے پہلے بھی ٹرمپ نے ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی معاهدے کی بھی مخالفت کی ہے۔