الوقت - رابرٹ فیسک نے حلب کے مسئلہ میں امریکا کی کارکردگی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
برطانیہ کے مشہور مصنف اور مفکر رابرٹ فیسک نے اقوام متحدہ میں امریکا کی نمائندہ سمانتھا پاور کی کارکردگی کی تنقید کرتے ہوئے سوالیہ نشان لگائے ہیں۔
رابرٹ فیسک نے انڈيپیڈینٹ میں اپنے مضمون میں لکھا کہ سمانتھا پاور جب حلب میں شہریوں کے خلاف بربریت کی باتیں کرتی ہیں تو مجھے فلسطینی عوام کی یاد آتی ہے، وہ لوگ جن کا 1982 میں صبرا اور شتيلا میں قتل عام کیا گیا، وہ لوگ جن کو اسرائیل کے اصل حامی امریکی فوجیوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گيا اور اسرائیلی فوجی خاموش تماشائی بنے رہے لیکن سمانتھا پاور نے اس جانب کوئی اشارہ نہیں کیا۔ شاید مارے گئے فلسطینیوں کی تعداد کم تھی، ہلاک شدہ 1700 لوگوں میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ حلبچے میں بھی تقریبا 5 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
رابرٹ فیسک کا کہنا تھا کہ سمانتھا پاور کے الفاظ کے بعد مجھے عراق پر امریکا کے وسیع حملے کی یاد آ گئی۔ ایک ایسا حملہ جس میں 15 لاکھ لوگ مارے گئے، سربرینستا کا قتل عام جس میں 9 ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ مجھے افغانستان میں سی آئی اے کے تشدد کے مراکز کی یاد آ گئی۔ مجھے ان معصوم لوگوں کی یاد آئی جن کو امریکا کے صدر نے تحقیقات کے لئے بھیجا تھا۔
رابرٹ فیسک نے لکھا کہ سمانتھا پاور نے غزہ کی جانب اشارہ نہیں کیا، اسرائیلیوں کے ہاتھوں مارے گئے فلسطینی بچوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا، یمن کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں کیا جہاں امریکی اتحاد شیعہ مسلمانوں پر حملے کر رہا ہے اور 4 ہزار عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ انہوں نے داعش کی جانب سے موصل کے عوام کے قتل عام کی طرف بھی اشارہ نہیں کیا۔
رابرٹ فیسک نے القاعدہ کے بارے میں دوہرے معیار کی بھی تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ وہ کیوں کہتے ہیں کہ 11 ستمبر کا واقعہ القاعدہ نے انجام دیا اور اسی القاعدہ کو آج شام میں امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ یہی القاعدہ، النصرہ فرنٹ اور فتح الشام الشام فرنٹ کی آڑ میں شام میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔