الوقت - صیہونی حکومت اور جمہوریہ آذربائجان کے میڈیا گزشتہ کچھ مہینوں سے مسلسل صیہونی وزیر اعظم نتن یاہو کے دورہ باکو کے حوالے سے تبلیغ کر رہے تھے۔ آخرکار صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بروز منگل 13 دسمبر کو باکو پہنچے۔ ان کا باکو کا یہ دورہ یک روزہ تھا۔ تاریخی لحاظ سے غاصب صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نتن یاہو پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے جمہوریہ آذربائجان کا باضابطہ دورہ کیا۔ البتہ اگست 1997 میں بھی بنیامن نتن یاہو نے جب وہ وزیر اعظم بھی تھے، کم مدت کے لئے باکو کا غیر سرکاری دورہ کیا تھا۔ یہ سفر جمہوریہ آذربائجان کی سفارتی تاریخی میں نادر واقعہ شمار ہوتا ہے۔
حیدر علی اف نے رات کے اندھیرے میں صیہونی حکومت کے وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ جون 2009 میں غاصب صیہونی حکومت کے نویں صدر شیمون پیرز نے بھی جمہوریہ آذربائجان کا دورہ کیا تھا۔ صیہونی حکومت کے اس وقت کے وزیر خارجہ اور موجودہ وزیر جنگ نے بھی 2010،12 اور 2014 میں جمہوریہ آذربائجان کا دورہ کیا تھا۔ اپریل 2013 میں بھی جمہوریہ آذربائجان کے وزیر خارجہ المار محمد یاروف نے غاصب صیہونی حکومت کا دورہ کیا تھا۔ ستمبر 2014 کو بھی صیہونی حکومت کے وزیر جنگ اور بچوں کے قاتل موشے یعلون نے بھی جمہوریہ آذربائجان کا دورہ کیا تھا۔ باوجود اس کے جمہوریہ آذربائجان اسرائیل میں اپنا سفارتی نمائندگی کا افتتاح نہیں کیا ہے لیکن جمہوریہ آذربائجان نے اس غاصب صیہونی حکومت میں متعدد نمائندے بھیجے اور باکو نے بھی اسرائیل کے متعدد وفود کی میزبانی کی ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کے جمہوریہ آذربائجان کے سفر کے کچھ اہداف بیان کئے جا رہے ہیں :
تنہائی سے نکلنے اور اعتماد بحالی کی کوشش :
غاصب صیہونی حکومت، فلسطین پر غاصبانہ قبضے، فلسطین کے عوام کے خلاف مسلسل جرائم کا ارتکاب کرنے، فلسطین قوم کی نسل کشی اور جنگی جرائم کی وجہ سے دنیا میں الگ تھلگ پڑ گئی ہے اسی لئے یہ حکومت ایک مسلم ملک کی سرزمین کا دورہ کرکے خود کو تنہائی سے نکالنے اور اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہی ہے۔
قدم بہ قدم اثر و رسوخ، منظم حملے :
صیہونی حکومت ایک حکمت عملی کے ذریعے ان مسلم ممالک کی جانب سے جو اس ناجائز حکومت کا محاصرہ کئے ہیں اور اسرائیل کے وجود کو باضابطہ قبول نہیں کرتے، برسوں سے اس عمل کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی تناظر میں اس نے مغربی ایشیا یا مشرق وسطی کے باہر کے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کو اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ اگر تل ابیب اور باکو کے تیل اور گیس کی خرید و فروخت، صنعت اور زیر زمین ذخائر سمیت متعدد شعبوں میں اپنے تعلقات کو توسیع دینے میں کامیاب ہوگئے تو یہ علاقے پر صیہونی حکومت کے اثر و رسوخ قائم کرنے کا مقدمہ ہوگا۔ تل ابیب اور باکو کے درمیان تجارتی لین دین 3.5 ارب ڈالر کا ہے۔ اسی طرح جمہوریہ آذربائجان اسرائیل میں خرچ ہونے والے 40 فیصد سے زیادہ تیل کو پورا کرنے والے کی حیثت سے صیہونی حکومت کا سب سے قابل اعتماد توانائی کو پورا کرنے والا ملک ہے۔
ایران اور جمہوریہ آذربائجان کے تعلقات میں کشیدگی :
صیہونی حکومت اور اس سے وابستہ میڈیا نے مذکورہ سفر کی ایسی تبلیغ کی کہ گویا بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے لیکن بیت المقدس کی غاصب حکومت عالم اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور یقینی طور پر مسلمانوں میں اتنی زیادہ منفور ہے کہ ایک یا دو مسلم ممالک کا دورہ کرکے اور مسلم ممالک کے درمیان تفرقے پیدا کرکے اعتماد بحالی کی اپنی کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔