الوقت - ان ایام میں مرکزی ایشیاء کے علاقے میں سیاسی اور سیکورٹی تعلقات بہت تیزی سے استوار ہو رہے ہیں۔ ہندوستان، امریکا سے مقابلے کی کوشش کر رہا ہے اور ان دنوں وہ واشنگٹن کی جانب رجحان پیدا کر رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان جلد از جلد امریکا سے فاصلہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن سے اسلام آباد کے دور ہونے کے عمل کا اوبامہ کے دور اقتدار میں اچھی طرح مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ دوسری جانب دو قدیمی حریف کی حیثیت سے پاکستان اور روس، باہمی تعاون اور سیکورٹی کے مد نظر مزید نزدیک ہونے میں دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس دلچسپی کو پاکستان اور روس کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں میں دیکھا جا سکتا تھا۔
روس اور پاکستان کے درمیان حالیہ مشترکہ فوجی مشقیں، سرد جنگ کے بعد پہلی بار منعقد ہوئی تھیں۔ سرد جنگ کے دوران، ایک مسلم ملک کی حیثیت سے پاکستان سوویت یونین کے مقابلے میں کھڑا تھا اور روئٹرز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روس اور پاکستان کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں، جنوبی ایشیا میں کرملین کی سیاست کی کڑی کا ایک دوسرا حصہ ہے۔
دوسری جانب پاکستان واضح طور پر روس سے نزدیک ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان ایسی حالت میں جب اس کے تعلقات امریکا کے ساتھ تیزی سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں، علاقے میں نئے اتحادی کی تلاش میں نظریہ لگائے ہوئے ہے اور ماسکو کو اس اتحاد کے لئے بہترین آپشن سمجھتا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان اور روس نے سوخوئی اور ایم آئی-35 ہیلی کاپٹر کی خریداری کے لئے مذاکرات کئے اور اس سلسل میں دونوں فریق کے درمیان اتفاق بھی ہوگیا۔
ان سب باتوں سے صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ماسکو اور اسلام آباد اپنے تعلقات کو نئی بلندیاں عطا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تعلقات علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر روس کو پاکستان کا پہلا اتحادی بنا سکتے ہیں؟ در حقیقیت کیا اس کے بعد سے روس، پاکستان کے لئے امریکا کی جگہ لے سکے گا ؟
اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔ اس مسئلے کے لئے کچھ شرطیں اور کچھ معیار ہیں۔ یہ شرطیں اور معیارات پاکستان اور روس کے درمیان عمیق تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
یقینی طور پر پاکستان اور روس کے درمیان سب سے اہم اختلافی مسئلہ طالبان کا ہے۔ یہی تنہا عنصر دونوں ممالک کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔ روس پوری طاقت سے ناامیدی کے ساتھ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ افغان طالبان کی حمایت محدود کر دے تاکہ افغانستان کی داخلی جنگ جو مرکزی ایشیا کی سیکورٹی کو خطرے میں ڈالے ہوئے، ختم ہو جائے۔ یہ علاقے، سوویت یونین کے اثر و رسوخ والے علاقے ہیں اور روس کے حیات خلوت کے طور پر ان علاقوں میں امن و استحکام روس کے لئے بہت فیصلہ کن ہے لیکن مرکزی ایشیا میں پاکستان کی جانب سے طالبان کی حمایت نہ کرنا، انقلاب کے حکم میں ہے۔
پاکستان کی جانب یہ طالبان کی حمایت، روسی کے مد نظر امن و استحکام کے خلاف ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے طالبان کی حمایت اور اسی حمایت کی وجہ سے ہونے والی تنقیدوں کی وجہ سے پاکستان علاقے میں یک و تنہا ہو کر رہ گیا ہے اور ہندوستان، افغانستان، ایران، امریکا اور نیٹو کی جانب سے اسلام آباد کی مسلسل مذمت ہوتی رہتی ہے۔