الوقت - موجودہ وقت میں مشرق وسطی میں قومی اور فرقہ وارانہ جھڑپوں کے علاوہ جس چيز پر دنیا کی نظر ٹکی ہوئی ہے وہ اس علاقے میں تشدد کے طولانی ہونے کا عمل ہے۔ اسی بنیاد پر مشرق وسطی میں زیادہ مفاد حاصل کرنے والوں کی حیثیت سے امریکا اور یورپ نے بحران کے حل کے لئے متعدد منصوبے پیش کئے تاکہ علاقے میں ظاہری طور پر کشیدگي پر لگام لگائی جا سکے۔ اگر چہ بعض تجزیہ نگاروں نے مغرب کو مشرقی وسطی کے بحران کو شدید کرنے اور جھڑپوں کا اصل عنصر قرار دیا۔ اس کےباوجود یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ 21ویں صدی کے شروعاتی عشرے میں مشرق وسطی کے عرب ممالک نے علاقے میں مغرب کی مداخلت کی راہ ہموار کی اور ابھی تک وہ اس بحران کو کٹرول کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکے؟
مشرق وسطی کے لئے یوگوسلاویہ کا تجربہ
بہت سے افراد کا یہ خیال ہے کہ مشرق وسطی میں قومی اور فرقہ وارانہ تصادم کے حل کے لئے یوگوسلاویہ کے کامیاب تجربہ سے استفادہ کرنا چاہئے، یعنی نسل کشی، زبردستی مہاجرت پر مجبور کرنا اور عوام کی منتقلی۔ اگر یہ راہ حل بھی مؤثر سمجھیں لیکن ہمارے سامنے دو بنیادی مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ پہلا یورپ میں مسلسل جنگ کے بعد قومیت کا مسئلہ حل ہوگیا۔ دوسرا مشرق وسطی میں فرقہ وارانہ تصادم اور قومی جھڑپیں یورپ سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ مثال کے طور پر عراق کے مختلف صوبوں میں کرد، عرب اور ترکمن افراد رہتے ہیں اور ان میں ہر ایک کا اپنا مذہب اور دین ہے۔ ان میں شیعہ، سنی، عیسائی اور ایزدی برادی کے افراد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ داعش کے وجود میں آنے سے پیدا ہونے والی داخلی کشیدگی نے قومی اور مذہبی تانے بانے کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ یورپ میں، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد افراد کی مہاجرت اور عوام کی منتقلی کے نتیجے میں یورپ میں رہنے والی اقلیت قوموں کے لئے آزادی اور خودمختاری کا فقدان ہو گیا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپ میں دو عشروں کی وسیع مہاجرت، منتقلی اور جنگ کے تجربات کے بعد یورپی عوام نے اپنے حالات کو منظم کر لیا اور اس طرح سے سرحدوں کی مکمل تقسیم بندی کا عمل وجود میں آیا اور تمام افراد پر امن طریقے سے اپنی زندگی کے معمولات جاری رکھ رہے ہیں، گرچہ شمالی آئرلینڈ، باسک (Basque) اور کاٹالان Catalans جیسے مسائل ابھی بھی موجود ہیں۔
حکومتوں کا لیت و لعل :
بعض کا یہ کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے قومی اور فرقہ وارانہ تصادم کے لئے بہترین راہ حل ٹیڈگر کا نظریہ ہے۔ انہوں نے قومی اور نسلی جھڑپوں کو کم کرنے کے لئے جو راہ حل پیش کی تھی وہ حکومتی امور میں تمام قوموں اور نسلوں کی شمولیت پر مبنی تھا۔ اس حکومت میں شامل تمام افراد اپنی قوم و نسل اور فرقہ کے افراد کے حقوق اور اقلیت کے حقوق کی رعایت کریں گے اور اس طرح سے ملک میں قومی انتشار اور قرقہ واریت کا خاتمہ ہوجائے گا۔
اس نظریہ کے مقابلے میں کچھ افراد کا یہ کہنا ہے کہ ملک میں ڈیموکریٹک اصلاحات کے ذریعے قومی تصادم کو کسی حد تک کٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے امریکا اپنی سب سے اچھی مثال عراق کو پیش کرتا ہے۔ گرجہ عراق میں صدام کی حکومت کا تختہ الٹ گیا لیکن اس کے نتیجے میں عراقی معاشرہ ایک پلیٹ فارم پر نہیں آسکا۔ بہرحال اس تجزیہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مشرق وسطی کے تصادم میں کبھی بھی مشرقی نسخہ یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا اور یہاں کے عوام ہی اپنے مسائل کو خود ہی حل کریں اور ایک پر امن قوم ہونے کا ثبوت دیں۔