الوقت - گلوپ ادارے کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق امریکا کے زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امریکا میں صدارتی انتخابات کے بعد معاشرے میں اختلافات بہت گہرے ہو گئے ہیں۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق، پیر کو گلوپ ادارے کی جانب سے جاری نئے سروے کے نتائج اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ 77 فیصد امریکی عوام کا یہ ماننا ہے کہ ملک میں اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔
سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر امریکیوں کا یہ خیال ہے کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملک میں دیرینہ اتحاد کو بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
اسی طرح ٹي این ایس يوكے ادارے کے سروے سے بھی جس کو اسپوتنک خبر رساں ایجنسی نے جاری کیا ہے، پتا چلتا ہے کہ تقریبا تمام امریکیوں کا یہ خیال ہے کہ امریکی میڈیا نے انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مخاصمانہ رویہ اختیار کیا۔
سروے سے پتا چلتا ہے کہ 59 فیصد سے زیادہ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امریکہ کے قومی اور مقامی ذرائع ابلاغ نے صدارتی عہدے کے امیدوار ٹرمپ سے اپنی دشمنی نکالی ہے۔
دوسری جانب ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے ہی امریکا میں نسلی حملوں میں تیزی آئی ہے۔
گزشتہ دو دنوں میں امریکہ کے الگ الگ شہروں میں چار پولیس اہلکاروں کو گولی مار دی گئی جس میں ایک پولیس افسر بھی شامل ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پولیس پر حملے بھی نسلی تشدد کا ہی ایک سلسلہ ہے۔ امریکہ کے سان اینٹونیو، سینی بیل، سینٹ لوئس اور گلیڈاسٹون شہروں میں پولیس اہلکاروں پر یہ حملے کئے گئے۔
سان انٹونیو میں پولیس ہیڈکوارٹر کے سامنے ایک سینئر پولیس افسر بنیامین ماركوني کے سر میں دو گولی ماری گئیں جس میں ان کی موت ہو گئی۔ پولیس نے سیاہ فام حملہ آور کی تلاش تیز کردی ہے۔
امریکا کے ایک پولیس افسر کو فیس بوک پر امریکا کی خاتون اول مشیل اوباما کے بارے میں نسل پرستانہ تبصرہ کرنے کے جرم میں برخاست کیا جا چکا ہے۔ اس پولیس اہلکار کو برطرف کئے جانے سے کچھ ہی دن پہلے اسی الزام میں ایک امریکی میئر نے بھی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ اسی کے ساتھ ٹرمپ مخالف مظاہروں کا سلسلہ بھی رکا نہیں ہے۔