الوقت - شام کے شہر حلب کے مغربی علاقے کے الفرقان محلے کے ایک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں دس بچے جاں بحق ہوگئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں نے مارٹر گولوں سے مغربی حلب کے بچوں کے اسکول پر حملہ کیا۔ جاں بحق ہونے والے بچوں کیی تعداد 7 اور 12 سال کے درمیان تھی۔
دہشت گردوں کا یہ تازہ حملہ شام کے کے امور میں اقوام متحدہ کے ایلچی اسٹیفن ڈی مستورا کی اس تجویز کے وقت ہوا جس میں انہوں نے مشرقی حلب کے ان علاقوں میں جہاں مسلح افراد کا قبضہ ہے خودمختاری کی بات کہی ہے۔ اسٹیفن ڈی مستورا نے اپنی تجویز میں کہا کہ نصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کو علاقے سے نکالنے کے بعد مشرقی حلب کے امور کی ذمہ داری مسلح افراد کے حوالے کر دی جائے۔ اسٹیفن ڈی مستورا کی تجویز ایسی حالت میں ہے کہ حلب کی مہم کے دوران شام کی فوج اور اس کے اتحادیوں کی پیشرفت جاری ہے۔ اسی پیشرفت کی وجہ سے مشرقی حلب کےعلاقوں سے کچھ شہری باہر نکلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ڈی مستورا کی تجویز :
شام کے امور میں اقوام متحدہ کے سفیر کی نئی تجویز امریکا کی جانب سے روس کو دیئے گئے انتباہ کے وقت سامنے آئی ہے، شام کی ارضی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کی گئی نئی تجویز کو شام کی حکومت نے سرے سے خارج کر دیا۔ شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے اس تجویز پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی حلب میں خودمختاری کی تجویز پوری طرح مسترد کی جاتی ہے۔ دمشق میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں ولید معلم نے کہا کہ شام کی حکومت نے مریضوں ، بوڑھوں اور بچوں کو نکلنے کے لئے تین مہلت دی۔ انہوں نے شامی حکومت کے مخالفین پر الزام عائد کیا کہ وہ مشرقی حلب کے علاقے میں انسان دوستانہ امداد پہنچنے نہیں دے رہے ہیں۔
شام کے حالات خاص طور پر حلب کے حالات مکمل طور پر شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے کنٹرول میں ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈی مستورا کا یہ منصوبہ علاقے میں سرگرم دہشت گردوں پر دباؤ کم کرنے کے ہدف سے ہے۔ شامی فوج کی پیشرفت کے ساتھ اس تجویز کے بارے میں متعدد نکات کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے:
1- شام اور روس نے شام میں جنگ بندی کا اعلان کیا کیونکہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی حلب کے عوام کے لئے بہت زیادہ رنجیدہ تھے۔ جنگ بندی کا اعلان تو ہو گیا اور شام اور اس کے اتحادیوں نے جنگ بندی کی مکمل پابندی بھی کی لیکن دہشت گردوں کی جانب سے متعدد بار جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی جس سے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے گھڑیالی آنسوؤں کی پول کھل گئی اور سب کے پتا چل گیا کہ جنگ بندی کا شور کرنے کا مقصد حلب میں موجود دہشت گردوں پر دباؤ کو کم کرنا تھا۔
2- امریکا اور اس کے اتحادیوں خاص طور پر مسلح افراد کے گھڑیالی آنسو عام شہریوں کے لئے نہیں تھے کیونکہ جنگ بندی اور سامی فوج کی جانب سے مسلح افراد اور عام شہریوں کے نکلنے کے لئے راستوں کو مخصوص کئے جانے کے باوجود بھی دہشت گردوں نے عام شہریوں کو شہر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ بات پوری دنیا کو پتا چل گئی کہ شام میں سرگرم دہشت گرد عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو پتا تھا کہ شام کی فوج مشرقی حلب میں وسیع آپریشن کی تیاری کر رہی ہے۔
3- شامی حکومت کی یہ تاکید ہے کہ عام شہریوں کو مسلح دہشت گردوں نے اسیر بناکر رکھا ہے۔ مشرقی حلب کے اندر موجود دسیوں خاندانوں نے شامی حکومت اور فوج کو فون کرکے دہشت گردوں کے چنگل سے نجات دلانے کی اپیل کی۔ شامی شہریوں کی ان باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دہشت گرد مقامی باشندوں کے ساتھ انسانی رویہ اختیار نہیں کرتے اور شہری بھی دہشت گردوں کی موجودگي سے نالاں ہیں۔