الوقت - امریکا کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے جو بقول ہنری کیسینجر عقل مروجہ اور روایتی عقل کے خلاف انقلاب تھا، پوری دنیا حیرت زدہ ہے یا دوسرے الفاظ میں امریکا کے انتخابات نے تمام اندازوں کو درہم برہم کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران دیئے گئے متنازع بیان کے مد نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطی کے بارے میں امریکا کی خارجہ پالیسی کیسی ہوگی اور کس سمت بڑھے گی؟ کیا ٹرمپ کے اس بیان کے بعد جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب جیسے حکومتوں کو ان تمام اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے جو امریکا اس کی حفاظت کے لئے برداشت کرتا ہے، دو قدیمی اور مضبوط اتحادیوں کے تعلقات میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور مستقبل میں دونوں قدیمی اتحادیوں کے تعلقات کیسے رہیں گے؟
ان دو سوالوں کے جواب دینے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹرمپ اپنی اعلان کی جانے والی پالیسی اور نافذ کی جانے والی پالیسی میں تفاوت کے قائل ہیں، کیونکہ انہوں نے کچھ انتخابی وعدے ہلیری کلنٹن کے انتخابات میں شکست دینے اور انتخابات میں بازی مارنے کے لئے پیش کئے گئے تھے۔ دوسرے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے کچھ انتخاباتی ایجنڈے صرف اور صرف نمائیشی تھے۔ دوسرے یہ کہ اس نکتے پر بھی توجہ دینا بہت ضروری ہے کہ بنیادی طور پر امریکا میں پالیسی کسی ایک شخص پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ بیشتر مسائل میں خود اس شخص کے ذاتی نظریات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور پالیسی ساز افراد کی جانب سے جو مسئلہ پیش کیا جاتا ہے وہ مذکورہ شخص کے نظریات سے کافی متفاوت اور جدا ہوتا ہے۔ تیسرے یہ جب تک ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اور سیکورٹی ٹیم مشخص نہیں ہو جاتی، اس سے پہلے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکا کی خارجہ پالیسی کس سمت آگے بڑھے گی اور اس کی خارجہ پالیسی کے محور کیا ہوں گے اور ابھی یہ بھی کہنا بہت جلدی ہوگا کہ حکومت کے ڈھانچے میں ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے نظریات کس حد تک مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے بارے میں ٹرمپ کے ممکنہ رویے کے بارے میں ابھی کچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا مشرق وسطی کی جانب جانے والا امریکی راستہ، مشرق پر نگاہ کی پالیسی اور چین کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے تبدیل ہو جائے گا یا اس کی سطح میں کمی آ جائے گی۔ مشرق وسطی میں امریکا کے علاقائی کردار کا بے اثر ہونا، سعودی عرب کے لئے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔
سعودی عرب اور امریکا کے دو طرفہ تعلقات کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عام طور پر سعودی عرب کے تعلقات، ریپبلکن پارٹی کے صدور سے زیادہ اچھےاور پائیدار اور باہمی سمجھ بوجھ پر مبنی تعلقات ہوتے ہیں۔ ہلیری کلنٹن کے برخلاف جو ڈیموکریٹ اور ریپبلکن کے درمیان تھیں، موجود وقت میں آل سعود کے لئے منطقی آپشن ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ اس بات پر توجہ دینا بہت ضروری ہے کہ ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی مسائل سے وابستہ ہیں اور ان کو خراب کرنا ایک صدرکے لئے بہت سخت ہوگا، ہاں اس کے لئے یہ طریقہ ہوگا کہ وہ اس تعاون کی رفتار کو کم کر دے۔