الوقت - امریکا کے 45 ویں صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب، اس ملک کے یورپی اتحادیوں کے لئے زیادہ خوش آیند نہیں تھا۔ انہوں نے ترجیح دی تھی کہ وہ ہلیری کلنٹن کی مانند کہنہ کار سیاست داں سے لین دین کریں جو اس سے پہلے ملک کی وزیر خارجہ کے عہدے پر تھیں اور انہوں نے یورپ کے مختلف ممالک کا دورہ بھی کیا تھا تاہم مشرق وسطی میں جب علاقے سے زیادہ عرب ممالک ٹرمپ کے منتخب ہونے سے حیرت زدہ ہیں اور امریکا کے ساتھ ان کے تعلقات کا مستقبل تباہ ہو گیا ہے، بے شک امریکا کے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر علاقے میں سب سے زیادہ خوشی کے جشن منا رہا ہے وہ اسرائیل ہے۔
در حقیقت تل اویو کے حکام نے ایک عشرے کے دوران مشرق وسطی میں بوش کی سیاست کی وجہ سے اور اس کے بعد اوباما کی پالیسیوں کی وجہ سے موجود حالات سے راضی ہیں۔ فرقہ وارانہ جھڑپیں اور فسادات دقیقا اسی ہدف کے لئے ہیں جو صیہونی حکومت اس جغرافیائی علاقے میں آگے بڑھا رہی ہے۔ شام میں بحران کو بھی تقریبا چھ سال کا عرصہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مزاحمت کے محور میں رہنے والا ملک تقسیم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور ملک میں کچھ علاقائی ممالک کی جنگ نیابتی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے اس سے لوگوں کی توجہ صیہونی حکومت کے اقدامات سے ہٹ گئی لیکن ٹرمپ کی کامیابی سے حالات پہلے سے زیادہ صیہونی حکومت کے حق میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اگر ٹرمپ نے اپنی انتخاباتی مہم کے دوران صیہونی لابی کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنے نمائندے کو تل اویو نہ بھیجتے لیکن سنتی طور پر ریپبلکنز ہمیشہ سے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں رہے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اسرائیل کی سیکورٹی اور اس کی پائیداری، امریکی پالیسی کا مصدقہ اصول سمجھا جاتا ہے۔
اس بنیاد پر ٹرمپ نے اپنی انتخاباتی مہم کے دوران غیر معروف سفارتکاری کا بھر پور استعمال کیا اور یہ بعید نہیں ہے کہ وہ سابق ریپبلکنز کے راستے پر ہی گامزن رہیں۔ یہ بھی توقع ہے کہ وہ ایران کے حوالے سے سخت رویہ اختیار کریں خاص طور پر اس لئے کہ سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں ریپبلکنز کی تعداد زیادہ ہے اور اب سینیٹروں کو اوباما کے ویٹو کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔ ان حالات میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تجویز جو اب تک اوباما کے ویٹو کے خوف سے کانگریس میں پیش نہیں کیا گیا، ممکن ہے کہ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے پر اس پر عمل در آمد بھی شروع ہوجائے۔
قابل ذکر ہے کہ اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار کہا کہ وہ جے سی پی او اے سے راضی نہیں ہیں لیکن وہ اس بین الاقوامی سمجھوتے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے کیونکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان (جے سی پی او اے) کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد میں حمایت کی گئی ہے اور امریکا کی جانب سے اس کی خلاف وزری کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں لیکن ریپبلکنز ایران کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت اور ایران میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسی دستاویزات کو بہانہ بنا کر ایران کے خلاف اپنی قراردادوں کو منظور کرا سکتے ہیں لیکن ایرانی حکام کا یہ موقف ہے کہ اگر امریکا یا کسی دوسرے فریق نے جے سی پی او اے میں مذکور اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا تو ایران بھی یک طرفہ کاروائی کرنے میں دریغ نہیں کرے گا۔