الوقت - آخرکار ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کی حیثیت سے منتخب ہوگئے اور اب بھی یہ سوال ذہنوں میں موجود ہے کہ ان تبدیلیوں کے مد نظر واشنگٹن کی خارجہ پالیسی بحران شام کے حوالے سے کیسی ہوگی؟
یہ ایسی حالت میں ہے کہ زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں ابھی سے کوئی نظریہ بیان کرنا ابھی جلدی ہے لیکن ان کے سابقہ بیانوں اور روس کے صدر ولادیمیر پوتین سے ان کے اچھے تعلقات کے مد نظر، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شام کے مخالفین اور ان کے علاقائی حامی خاص طور پر سعودی عرب اس انتخاب سے خوشحال نہیں ہیں۔
در حقیقت شام کے مخالفین اور ان کے علاقائی حامی خاص طور پر سعودی عرب ہلیری کلنٹن سے بہت زیادہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے تاکہ امریکی صدارت کے عہدے پر بیٹھنے کے بعد وہ شام کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مخاصمانہ رویہ اختیار کریں ۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے شام کے بارے میں کلنٹن کی پالیسی اور ان کے سلوک کی مسلسل تنقید اس بات کی علامت ہے کہ وہ کم از کم ملک میں ہلیری کلنٹن کی جنگ پسندانہ پالیسی کو جاری نہیں رکھیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخاباتی مہم کے دوران کلنٹن کو خبردار کیا تھا کہ ڈیموکریٹ امیدوار کے انتخاب کی صورت میں تیسری عالمی جنگ کا مشاہدہ کیا جائے گا۔ ہلیری کلنٹن نے اپنی انتخاباتی مہم میں شام میں نو فلائی زون قائم کرنے اور بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کی بات کہی تھی لیکن ٹرمپ نے اپنے بیانوں میں اس بات پر تاکید کی تھی کہ بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے بجائے داعش کو شکست دینے پر اپنی توجہ مرکوز کی جانی چاہئے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ شام میں ہلیری کلنٹن کے اقدامات تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حالت میں صرف شام سے جنگ نہیں ہوگي بلکہ شام، روس اور ایران سے جنگ کرنی پڑے گی۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ بیان اس بات کی نشانی ہیں کہ وہ اوباما اور کلنٹن کے برخلاف روس سے زیادہ قریب ہوکر سیاسی طریقے سے بحران شام کو حل کرنے کی کوشش کریں گے اور اوباما کی طرح شامی حکومت کے مخالفین کو مسلح کرنے اور کلنٹن کی طرح شام میں نو فلائی زون قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابای مہم کے دوران کلنٹن کی جانب سے پوتین کی پیش کی گئی شرارتی تصاویر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات شام کے بارے میں روس کے ساتھ مذاکرات کو سخت کر دیں گے۔
اگر ٹرمپ نے شام کے بارے میں اپنی انتخاباتی مہم کے دوران جو باتیں کہیں ہیں، اس پر عمل کیا تو بحران شام کے جلد از جلد حل کی امید کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران شام کی فوج نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مغرب کے حمایت یافتہ مسلح دہشت گردوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور اب فوج شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پورے حلب پر شامی فوج کے قبضے کا معنی ساڑے پانچ سال سے جاری شامی حکومت کے خلاف مسلحانہ بغاوت کا خاتمہ ہوگا اور یہی موضوع سبب بنا کہ امریکا کی قیادت میں مغربی حکومت نے ماسکو پر سیاسی اور ذرائع ابلاغ کے دباؤ بڑھا دیئے تاکہ حلب میں اس کے حملوں کو روکا جا سکے۔ اس کے مقابل میں رو نے بھی مذاکرات کے ذریعے خاص طور پر امریکا سے مذاکرات کے ذریعے ممکنہ حد تک سیاسی طریقے سے اس بحران کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن امریکا کی موجودہ حکومت کے ساتھ روس کے مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
بہرحال ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے اور روسی صدر سے ان کے اچھے رابطے کے مد نظر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ شام کے بحران کے بارے میں روس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کریں گے اور اس بات کے مد نظر کہ میدان جنگ میں شامی حکومت کا پلڑا بھاری ہے۔ اگر امریکا حقیقت میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں مذاکرات کے ذریعے بحران شام کے حل میں سنجیدہ ہے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ شام کی جنگ ایک سال کے اندر ہی ختم ہو جائے گی۔