الوقت - موسسہ تحقیقات نور میں عالمی استکبار کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے ایک نشست کا انعقاد ہوا جس میں سیاسی مسائل کے ماہر ڈاکٹر سعد اللہ زارعی نے خطاب کیا۔ اس نشست میں ڈاکٹر زارعی نے عالمی استکبار کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کے داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر طلبہ کے قبضے کو علاقائی سطح پر تاریخی موڑ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے سفارتخانے یعنی جاسوسی کے اڈے پر طلبہ کا قبضہ تاریخ ساز واقعہ ہے اور اس نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اہم اثرات مرتب کئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں عظیم تبدیلیاں سامنے آئیں اور یہی سبب تھا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر طلبہ کے قبضے کے دن کو دوسرے انقلاب سے تعبیر کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اس واقعے کی سالگرہ کے موقع پر امریکی اس واقعے کی تحلیل اور تجزیہ میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ امریکی اور برطانوی ذرائع ابلاغ پر نظر ڈالنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی یہ فراموش نہیں کر سکا کہ 13 آبان مطابق 3 نومبر کو کونسا واقعہ رونما ہوا تھا۔ 13 آبان 1979 کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ کے پیرو مسلم طلبا نے ایران کے اسلامی انقلاب کے خلاف امریکہ کی مختلف سازشوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تہران میں امریکہ کے سفارت خانے ( جاسوسی کے اڈے) پرقبضہ کرلیا تھا۔
ڈاکٹر زارعی کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر جب تہران میں امریکا کے سفارتحانے پر طلبہ کے قبضے کا جائزہ لیا جاتا ہو تو اس مسئلے کے قانونی پہلوؤں پر کم اور اس کے سیاسی نتائج پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایران کے اندر اس کے قانونی پہلوؤ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
داخلی سطح پر اس واقعے کے اثرات :
داخلی سطح پر اس واقعے نے ایرانی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر کھڑا کر دیا۔ ان کے درمیان اتحاد و یکجہتی پہلے سے زیادہ نظر آنے لگی اور ایرانی قوم میں مزاحمت اور استقامت کا جذبہ مضبوط ہوا۔ امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کئے جانے کے واقعے سے پہلے پائی جانے والی تشویش، واقعے کے بعد اعتماد بہ نفس میں تبدیل ہوگئی اور مشکلات اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی جذبہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اس طرح سے بڑی جرات سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضے کا واقعہ نہ تو یہ حالات کبھی بھی پیش نہ آتے۔
عالمی سطح پر اس کے اثرات:
ڈاکٹر زارعی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ یہاں پر جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ یہ جاسوسی کے اڈے پر طلبہ کے کنٹرول کے واقعے نے امریکا کی غنڈہ گردی اور رعب و دبدبے کے چکناچور کر دیا۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس واقعے سے پہلے تک امریکا خود کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھتا تھا اور اس کو سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کا انتظار بھی تھا، وہ دنیا کی تنہا طاقت بننے کا خواب دیکھ رہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ دنیا کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہوگی لیکن اس واقعے نے تمام اندازوں کو تبدیل کر دیا اور امریکا کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
اس واقعے کے علاقائی اثرات :
ڈاکٹر زارعی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس واقعے کا پہلا رد عمل علاقے میں اس طرح سامنے آیا کہ علاقے اور علاقے کی باہر کی قومیں گروہ گروہ کی شکل میں ایرانی سفارتخانوں میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے سفارتخانوں میں تقاریر کرکے اور میمورینڈم پر دستخط کرکے اعلان کیا کہ وہ ایرانی قوم کے ساتھ ہیں اور ایران کے خلاف ہونے والی کسی بھی کاروائی کا معقول جواب دیں گیں۔ یہاں تک کہ مغربی ممالک میں غیرمسلم افراد نے ایرانی سفارتخانوں میں حاضر ہوکر ایران کی حمایت کا اعلان کیا۔ پوری دنیا میں ایران کی حمایت کی عظیم الشان لہر شروع ہوئی اور سرکاری طور پر ایرانی حکومت اس واقعے کی وجہ سے الگ تھلگ نہیں بڑی۔ اس حوالے سے سب سے بہترین ردعمل شام کے موجودہ صدر حافظ الاسد کی جانب سے آیا اور انہوں نے ایرانی طلبہ کے اقدام کی کھل کر حمایت کی۔