اسرائیل کی ميریٹس پارٹی کی سربراہ نے سعودی عرب کے تبوک ایئر بیس میں امریکی اور اسرائیلی حکام کی تعیناتی کا انکشاف کیا ہے۔
ميریٹس پارٹی کی سربراہ زہاوا گالون نے کہا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے 122 فوجی اہلکار سعودی عرب کے شہر تبوک میں واقع شاہ فیصل ایئر بیس میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے امریکا کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت یمن پر حملے میں سعودی عرب کی حمایت اور مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
زہاوا گالون نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت تبوک کی شاہ فیصل ایئر بیس میں جدید میزائل اور ریڈار سسٹم بھی نصب کئے جا رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکا اور صیہونی حکومت کی جانب سے سعودی عرب کو دیے جا رہے ہتھیاروں کو یمنی عوام کے قتل عام کا بنیادی سبب قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ سعودی حکومت کو دیے جا رہے مہلک ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ بند کر دینا چاہئے۔
یمن میں سعودی عرب کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کے سلسلے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کا رخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سعودی حکام نے امریکہ کے اشارے پر اور اسرائیل سے ہتھیاروں کی فراہمی کی ضمانت کے بعد ہی 26 مارچ 2015 سے یمن پر وحشیانہ حملے شروع کئے تھے۔ یمن کی جنگ میں سعودی عرب کو صیہونی حکومت کی طرف سے مل رہی حمایت اور تعاون کے سلسلے میں مختلف رپورٹیں پہلے ہی سامنے آ چکی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ جنوبی سعودی عرب کی ایک چھاؤنی میں کچھ صہیونی فوجی افسران کی ہلاکت اور یمن کے مختلف علاقوں میں ہوئے ہوائی حملوں میں اسرائیلی جیٹ طیاروں کے استعمال سے بھی یمن کی جنگ میں صیہونی حکومت کے شامل ہونے کے پختہ ثبوت ملتے ہیں۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں ایسی گرمجوشی پہلے کبھی دکھائی نہیں دی جیسی یمن کی جنگ میں آل سعود اور صیہونی حکومت کے درمیان دکھائی دے رہی ہے اور سعودی شہزادے نے بھی مختلف تقریروں اور بیانات میں اس کا خیر مقدم کیا ہے یہاں تک کہ آل سعود نے صیہونی حکومت کے ساتھ کھل کر قریبی اقتصادی اور سفارتی تعلقات کو گرین سگنل دے دیا ہے۔
سعودی عرب اور اسرائيل کے درمیان گہرے تعلقات کا معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب کی خفیہ سروس کے سابق سربراہ بندر بن سلطان کے مشیر انور عشقي نے مسلسل مختلف ممالک میں صیہونی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔