الوقت - ہند پاک تعلقات اس وقت ایسے دو راہے پر ہیں کہ جس کی ایک راہ، جو بہتر سفارتی تعلقات سے عبارت ہے، مسدود نظر آرہی ہے جبکہ دوسری راہ جسے کشیدگی اور ناچاقی سے موسوم کیا جا سکتا ہے، دور تک پھیلی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ دوسری راہ کسی اعتبار سے موزوں نہیں ہے کیونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اور پڑوسی کے ساتھ تنازع کبھی گھر کے باہر تک محدود نہیں رہتا بلکہ گھر کے امن و سکون کو بھی برباد کرتا رہتا ہے۔موجودہ صورت حال میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کی خبروں میں سرحد پر ہونے والی وارداتیں اور واقعات ہی چھائے ہوئے ہیں اور دونوں جانب کے لیڈران، ان جھمیلوں میں کچھ اس طرح گرفتار ہیں کہ جتنا وقت اور توانائی ایک دوسرے سے نمٹنے میں صرف کی جارہی ہے، اتنی اپنے اپنے ملک کے عوام اور ترقی و خوشحالی کی تدابیر پر خرچ ہو تو اس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں سخت کشیدگی کے باوجود سرحد سے کبھی کبھار کوئی اچھی خبر بھی موصول ہوجاتی ہے۔
مثال کے طور پر اختتام پذیر ماہ کے اوائل میں جب سرحدی کشیدگی کم نہیں تھی، این ڈی ٹی وی نے ایک خبر جاری کی تھی کہ ہند پاک بین الاقوامی سرحد پر ایک 12سالہ نوجوان مویشی چراتے چراتے ہندوستانی حدود میں داخل ہو گیا۔ بی ایس ایف کے جوانوں نے محمد تنویر نامی اس نوجوان کی بابت پاکستانی رینجروں کو اطلاع دی اور اسے ان کے حوالے کیا۔ نہ فائرنگ ہوئی نہ ہی محمد تنویر کو گرفتار کیا گیا بلکہ انسانیت کے ایک اہم تقاضے کو احسن طریقہ سے پورا کردیا گیا۔ اس سے جہاں بی ایس ایف کے جوانوں کو اطمینان حاصل ہوا ہوگا وہیں پاکستانی رینجروں میں احساس ممنونیت پیدا ہوا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ سرحد پر دونوں جانب کے سپاہیوں میں کبھی کبھار خوش گپیاں بھی ہوجاتی ہیں اور اشاروں اشاروں میں دلی جذبات کا اظہار بھی۔ سوال یہ ہے کہ جب ایسا ہو سکتا ہے تو عموما ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
اس سوال کا جواب ہند پاک تعلقات کی ابتر صورتحال کا ذمہ دارہے۔ سرحد کی ایک تازہ واردادت جس میں مندیپ سنگھ نامی ایک جوان کو شہید کرکے اس کی نعش کو مسخ کیا گیا، انتہائی ذلت آمیز اور انسانیت کو شرمسار کرنے والی ہے۔حکومت پاکستان کو بارہا متنبہ کیا گیا کہ وہ دہشت گردوں کو ہندوستان پرحملوں کیلئے اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہ دے لیکن یقین دہانی کے باوجود پاکستانی حکمرانوں نےاس سلسلے میں کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اس نے ممبئی کے خوفناک حملوں کے ذمہ داروں کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دلوائی۔ پاکستان، ہندوستان سے جنگ کی جرأت نہیں کرسکتا لیکن جنگ جیسے حالات پیدا کرنے، برقرار رکھنے اور دہشت گردانہ حملوں کے ذریعہ ڈھکی چھپی جنگ کی اپنی حکمت بدعملی پر قائم ہے نیز نئی دہلی کیلئے مسائل پیدا کرنے اور دنیا بھر میں خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی بزدلانہ پالیسی ترک نہیں کرنا چاہتا۔ ظاہر ہے کہ اس سے ٹھوس بنیادوں پر بہتر تعلقات کا ماحول پیدا نہیں ہوسکتا چنانچہ نہیں ہو رہا ہے۔
دن بہ دن حالات خراب سے خراب تر ہونے کےساتھ ساتھ ہمہ وقت تشنج کی سی کیفیت کا برقرار رہنا نہ تو خود پاکستان کیلئے فائدہ مند ہے نہ ہی ہندوستان کیلئے جو اپنی توانائی حالات سے نمٹنے میں صرف کرنے پر مجبور ہے۔ آخر پاکستان کیوں نہیں سمجھتا کہ بھلائی امن ہی میں ہے، چھوٹی چھوٹی جنگوں یا کسی بڑی جنگ میں نہیں جس کی دھمکی وہ دے چکا ہے۔ دونوں ممالک چونکہ نیو کلیائی طاقت ہیں اسلئے ان کی ذمہ داری بھی بڑی ہے۔ دھمکی دینا تو دور کی بات، اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہئے۔ کیا اسلام آباد ،دو نیو کلیائی طاقتوں کے تصادم کا انجام نہیں جانتا؟ کیا اسلام آباد مسلسل کشیدگی کے نقصانات سے نابلد ہے؟ پھر کیوں باز نہیں آنا چاہتا؟