الوقت - ایسی حالت میں کہ جب مشرق وسطی اور مغربی ایشیا، امریکا کی خارجہ پالیسی کی اہم ضروریات میں شمار ہوتے ہیں، گزشتہ عشروں کے دوران، امریکا نے جنگ، دہشت گردی، امن مذاکرات اور عام تباہی کے ہتھیاروں سے مقابلے جیسے تناظر میں مغرب ایشیا میں بحران پھیلانے کی اپنی پالیسی پرعمل پیرا ہے اور علاقے میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے علاقے اور علاقے سے باہراپنی قدرت نمائی کر رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اگر علاقہ بحران زدہ رہے گا تو علاقے میں انسانیت کے منجی اور جمہوریت کے دعویدار امریکا کی علاقے میں موجودگی کا احساس ہوتا رہے گا۔ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا پہلے جنگ و جدال کے تناظر میں ایک وسیع بحران کو ہوا دیتا ہے اور اس کے بعد دوسرے مرحلے میں اقتصادی اور اسلحہ ساز کمپنیاں بحران زدہ علاقوں میں بحران کو ہوا دینے، تبدیلی پیدا کرنے اور اپنے اثر و رسوخ کی ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں اور اس کے بعد مخالف افراد امریکی سیاست دانوں کے زیر اثر نظام حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں جس کا اہم ہدف سرمایہ کاری کے نظام کو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ یہ افراد دہشت گردی اور انتہا پسند جیسے مفہوم کے تناظر میں سرکوب کئے جاتے ہیں۔ مغربی ایشیا میں اپنی تسلط پسندی کی حفاظت کرنے کے لئے بحران پیدا کرنے کے لئے امریکا کے اہم علاقے یہ ہیں :
- فلسطین کے عرب علاقے 1948 میں امریکا کی حمایت سے مسلط کردہ یہودی حکومت کے وجود نے فلسطینی کی سرزمین کے کئی عشروں کے فلسطینی – اسرائیلی اور عرب حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ اختلافات کی زمین ہموار ہوئی جو اب تک جاری ہے۔ فلسطین کی سر زمین پر اسرائیل جیسے کینسر کے پھوڑے کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک علاقے میں خلفشار جاری ہے۔ یہ اختلافات صرف علاقے کی حد تک محدود نہیں رہے بلکہ اس نے جنگ کی شکل اختیار کر لی اور اسرائیل کے ساتھ علاقے کی عرب حکومتوں کے ساتھ جنگوں اور اسرائیل کے ساتھ فلسطینی کے داخلی اختلافات نے علاقے میں امریکا کی مداخلت اور اپنی طاقت مسلط کرنے کا موقع فراہم کیا۔
- عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام کی تسلط پسندانہ خواہش کی امریکا کی جانب سے حمایت نے نئے بحران کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ صدام کی تسلط پسندانہ پالیسی کا نتیجہ عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کی شکل میں سامنے آیا۔ خلیج فارس کے علاقائی ممالک کو بڑے پیمانے پر ہتیھار فروخت کرنا، علاقے میں ایرانوفوبیا کا پرپیگینڈا کرکے علاقائی ممالک کے ساتھ اقتصادی سمجھوتے کرنا اور مغربی ایشیا کے متعدد ممالک میں فوجی چھاونیوں کا قیام، ایران اور عراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ کے تناظر میں بین الاقوامی سطح پر اپنی طاقت کی حفاظت کرنے کے لئے امریکا کی کوششوں کے واضح نمونے تھے۔
- 1996 میں افغانستان میں القاعدہ کے جنگجوؤں اور اوسامہ بن لادن کا داخل ہونا جن کی امریکا اور سعودی عرب کھلی حمایت کر رہے تھے، افغانستان میں وسیع بحران کا سبب بن گیا۔ 2001 میں القاعدہ کی جانب سے امریکا میں نائن الیون کے حملہ سبب بنا کہ نئی صدی میں مغربی ایشیا میں امریکا فوجی مداخلت کے لئے پر تولنے لگا اور اس نے علاقے میں اپنی فوج داخل کر دی۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کی وجہ سے آج تک اس ملک میں پائیدار امن قائم نہ ہو سکا اور افغان حکومت امریکی فوجیوں کی محتاج ہوگئي اور اب بھی دسیوں ہزار امریکی فوجی افغانستان میں متعدد بہانوں سے تعینات ہیں۔
- 2001 میں امریکا کے موجود صدر جارج بوش نے بے بنیاد دعوے کے ساتھ عراق پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بار پھر مغربی ایشیا میں امریکی مداخلت کی زمین ہموار ہوئي۔ عراق میں تو صدام کی حکومت ختم ہوگئی لیکن عراق میں داخلی اختلافات 2005 تک جاری رہے۔ عراق کی مرکزی حکومت اور عراقی کردستان کی حکومت کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ سے امریکا نے عراق میں اپنی فوجیں تعینات کر دیں۔
- 2014 میں دہشت گرد گروہ داعش کے باضابطہ ظاہر ہونے کی وجہ سے امریکا نے ریڈیکل اسلام سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں پر یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ علاقہ میں جو افراتفری ہے وہ سب امریکا کی فوجی مداخلت کا نتیجہ ہے اور امریکا علاقائی قوموں کو نجات دینے نہیں بلکہ اپنے مفاد آگے بڑھانے کے لئے علاقے میں موجود ہے۔