الوقت - ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کے اتحاد کی جانب سے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی وجہ سے یورپی یونین کی تاریخی ووٹنگ کے بعد سعودی عرب نے یورپ کے سامنے تملق بازی کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔
لو بلاگ نے لکھا کہ 11 اکتوبر کو سعودی عرب کی شوری کے نائب سربراہ محمد الجفری نے یورپی یونین کی خارجہ کی امور کی کمیٹی کے ارکان سے ملاقات کرنے کے لئے برسلز کا دورہ کیا۔ گزشتہ تین مہینے میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کے بعد کسی سعودی اعلی عہدیدار کا برسلز یہ دوسرا مسلسل دورہ تھا۔ سعودی عرب کے تعلقات کا یہ نیا دورہ، ملک کے دانشوروں کو تنہائی سے نکالنے کے لئے یورپی یونین کے اراکان سے تعلقات استوار کرنے کے تناظر میں تھا۔ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے حصول کے لئے اوباما انتظامیہ کی مسلسل کوشش اور بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی کے لئے شام کے مسئلے میں امریکا کی جانب سے مداخلت پر زیادہ توجہ نہ دیئے جانے کی وجہ سے سعودی عرب کی ناراضگی میں اضافہ قابل توجہ موضوع ہے۔
دوسری جانب امریکا کے ایوان نمائندگان میں دہشت گردوں کے حامیوں کے خلاف عدالت "جسٹا" نامی قانون کی منظوری اور اس کی وجہ سے امریکا میں موجود سعودی عرب کے اثاثے سیل ہونے سے یہ ثابت ہو گیا کہ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں ہے اور انہیں سب مسائل کی وجہ سے ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات سخت ترین مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکی اپنے قدیمی اتحادیوں کی اہمیت پر روز بروز زیادہ سوال کھڑا کر رہے ہیں اور ان کی مذمت کر رہے ہیں۔
اوباما نے اٹلانٹک خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی عرب کی سخت مذمت کی اور اس پر سعودی عرب کے ایک سفارتکار ترکی الفیصل نے شدید اعتراض بھی کیا۔ سعودی عرب کی یہ تمام مشکلات تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب پیدا ہونے والی عدیم المثال مشکلات کے ساتھ تھیں۔ الجفری نے سعودی عرب کے سامنے عظیم مشکلات کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اب کوئی ثروتمند ملک نہیں رہ گیا اور وہ اپنے مسائل کو دور کرنے کے لئے بڑی تیزی سے ذخیرے سے پیسہ خرچ کر رہا ہے۔
نئے اتحادیوں کی تلاش :
مشکلات میں بری طرح گرفتار سعودی عرب نے طبیعی طور پر دنیا میں اپنے نئے اتحادیوں کو تلاش کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ اس کے نشانے پر سب سے پہلے یورپی یونین تھا۔ دنیا کے سب سے بڑی تجارتی بلاک کی حیثیت سے پورپی یونین کو مشرق وسطی میں ایک طاقتور اور قدرتمند ٹھکانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر علاقے سے امریکا کی پسپائی کے بعد برطانیہ اور فرانس، علاقے میں سیکورٹی کے قیام میں اپنا کردار بڑھانا کی کوشش میں ہیں۔
ریاض کے ترجمان نے تاکید کی ہے کہ سعودی عرب اور یورپی یونین کے مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے مشترکہ مفاد ہیں کیونکہ یہ عمل یورپ کی جانب پناہ گزینوں کے ریلے اور یورپ کے آزاد معاشرے کے سامنے موجود ممکنہ خطروں کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
یمن ڈیم :
سعودی عرب کے حکام کی فکر کے برعکس مسئلہ یمن نکلا۔ سعودی حکام ، سعودی عرب کے اتحاد کی شبیہ اور اس اتحاد کے اقدامات کو ایران کے خطرے سے مقابلے میں نظم و ضبط اور سیکورٹی کے قیام کے لئے ضروری دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے اس دعوی کے مقابلے میں یمن میں سعودی عرب کے اتحاد کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جاری رہنے پر یورپی پارلیمنٹ کے ارکان تاکید کرتے ہیں۔ اسی تشویش کی وجہ سے سب سے پہلے انہوں نے سعودی عرب کے حلاف ہتھیاروں پر پابندی کی قرارداد منظور کی۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے کمیشنر زید رعد الحسین نے صنعا میں مجلس عزاء پر سعودی اتحاد کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کر دی جس میں 145 افراد جاں بحق اور 500 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
عام شہریوں پر اس ظالمانہ حملے پر بین الاقوامی رد عمل جس نے سعودی عرب کے مخالفین کو بھی متحد کر دیا، سعودی عرب کے لئے مشکل ساز بن گیا۔ حتی امریکا اور فرانس جیسے سعودی عرب کے اصل اتحادیوں نے بھی اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور عالمی سطح پر آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔