الوقت - امریکا میں دو صدارتی امیدواروں ہلیری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان پہلا انتخاباتی مناظرہ الزامات اور جواب الزامات کے ساتھ شروع ہوا۔ دونوں ہی حریفوں نے ایک دوسرے پر جم کر حملہ کیا اور اپنے ایجنڈے کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ اگر چہ دونوں کے ایجنڈے الگ الگ ہیں تاہم دونوں حریفوں کے درمیان صیہونی حکومت کے حوالے سے کافی یکسانیت ہے، یہی سبب ہے کہ پہلے ہی مناظرے کے بعد فلسطین کی وزارت خارجہ نے امریکی صدارتی عہدے کے امیدواروں ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن کے فلسطین کے بارے میں اور صیہونی حکومت سے ان کی حمایت سے متعلق بیان کی مذمت کی ہے۔
امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن نے اتوار کو نیویارک میں نیتن یاہو سے اپنی ملاقات میں کہا تھا کہ وہ فلسطین - اسرائیل تنازعہ کے سلسلے میں دو قوموں والے حل کی حمایت کرتی ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت بیرونی فریقوں کی جانب سے مسلط کردہ ہر حل کی مخالفت کریں گی۔
ہلیری کلنٹن نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف جاری مہم کا وہ مقابلہ کریں گی جن میں بی ڈی ایس مہم بھی شامل ہے۔ اسی طرح ریپبلکن پارٹی کے امیدوار نے بھی کہا ہے کہ وہ قدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر جانتے ہیں۔ امریکی صدارتی عہدے کے دونوں امیدواروں کے بیانات اور تقاریر اس بات کی علامت ہے کہ یہ دونوں ہی مکمل طور پر صیہونی حکومت کے حمایت میں ہیں۔
امریکا کے صدارتی عہدے کے امیدواروں کے بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہی امیدوار معین شدہ ساز باز عمل سے فلسطینی اور اسرائیلی فریقوں کے درمیان مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ اصل میں یہ دونوں ہی امیدوار نہیں چاہتے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری فلسطینی بحران کے حل میں کوئی کردار ادا کرے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی نام نہاد ثالثی سے قدس، مہاجرین اور صیہونی حکومت اور فلسطینی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کے ذریعے دونوں فریقوں کے درمیان سرحدوں کی ترسیم جیسے موضوعات کا حل ہو۔
اسی تناظر میں صیہونی حکومت کے قیام کے آغاز سے ہی امریکا اپنے ظالمانہ ویٹو کے حق کے ذریعے صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے اور آزاد فلسطینی ملک کی تشکیل کے سلسلے میں سلامتی کونسل میں کسی بھی قسم کی تجویز کو منظور ہونے میں رکاوٹیں پیدا کرتا رہا ہے ۔ بہر حال صیہونی حکومت کے قیام کے وقت سے ہی امریکا، صیہونی حکومت کا بھرپور حامی رہا ہے اور اس کی حمایت کی وجہ سے ہی آزاد فلسطینی ملک کا قیام نہیں ہو سکا ہے۔
امریکا میں انتخاباتی مناظرہ کیوں اہم ہے :
امریکا میں یہ رسم ہے کہ جب صدارتی انتخابات کو چھ ماہ باقی رہتے ہیں تو دو اصل حریفوں کے درمیان ٹیلی ویژن پر تین مناظرے ہوتاے ہیں اور ان مناظروں کو عوام بڑے ہی شوق سے دیکھتے ہیں اور انہیں مناظروں سے امیدواروں کے مستقبل کا تعین بھی ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر مناظرہ پندرہ منٹ کا ہوتا ہے جو چھ حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر مناظرے کا موضوع مختلف ہوتا ہے۔ امریکا میں 20 کروڑ افراد کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے اور کہا جاتا ہے ایک تہائی افراد ان مناظروں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے مناظرے کی خاص بات :
امید تھی کہ امریکا کے صدارتی انتخابات کے دونوں امیدوار خارجہ پالیسی اور ملک کے اقتصادی مسائل پر توجہ مرکوز کریں گے لیکن دونوں ہی امیدواروں نے ایک دوسرے کے شخصی مسائل، ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے اور عوام کو دھوکہ دینے پر ہی اپنی توجہ مرکوز کی۔ جانبی مسائل پر توجہ دینا اور دوسرے حریف کے ذاتیات پر حملہ، شروع سے ہی کلنٹن کی انتخاباتی ٹیم کا حصہ رہا ہے۔ کلنٹن کی ٹیم نے اعلان کیا کہ کلنٹن نے سنجیدہ اور غصور دو طرح کے ٹرمپ یا لاپرواہ و مزاحیہ ٹرمپ سے مقابلے کے لئے خود کو آمادہ کر رکھا ہے۔
مناظرے میں جس پر توجہ نہیں دی گئی:
امریکا کے صدارتی انتخابات کے دونوں ہی امیدواروں نے اپنی خارجہ پالیسی کے بجائے ایک دوسرے کے ذاتیات پر حملہ کرنے اور ایک دوسرے پر الزامی تراشی پر ہی تاکید کی۔ امید یہ تھی کہ دونوں امیدوار اپنے انتـخاباتی ایجنڈے میں شفاف طریقے سے دہشت گرد سے مقابلے پر تاکید کریں گے لیکن ایسا ہوا نہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کے ان دونوں ہی امیدواروں کی نظر میں دہشت گردی سے مقابلے کے ایجنڈے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔