حماس اور جہاد اسلامی کا تنہائی سے نکلنا :
انتفاضہ فلسطین نے غزہ کے مزاحمت کار گروہوں کے لئے تنہائی کے ماحول سے نکلنے اور وسیع پیمانے پر ان کی حمایت کے لئے بہترین موقع فراہم کیا۔ ان دونوں گروہوں نے انتفاضہ کی کچھ کاروائیوں کو باضابطہ قبول کیا تاکہ خود کو تنہائی کے ماحول سے نکال سکیں۔ حماس سے جو بہترین کاروائی کی تھی ان میں سے سب سے اہم مقبوضہ قدس میں بس میں دھماکہ تھا۔ اسی طرح جہاد اسلامی نے مہند حلبی کی شہادت پسندانہ کاروائی کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
محمود عباس سے ناراضگی میں اضافہ اور میئر کے انتخابات کا معطل ہونا:
انتفاضہ کے نتائج میں سے ایک محمود عباس کی محبوبیت اور ان کی قانونی حیثیت میں کمی کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی اہلکاروں کی گرفتاریاں اور شہادت پسندانہ کاروائیوں کے خلاف محمود عباس کے علی الاعلان بیانات، گزشتہ سال کے دوران محمود عباس کی محبوبیت اور ان کی قانونی حیثیت میں کمی کے دو اہم عنصر تھے۔ ان کی محبوبیت میں کمی کی واضح مثال فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے میئر کے انتخابات کو معطل کرنا ہے۔ محمود عباس اور ان کے حامی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اگر اعلان شدہ تاریخ میں انتخابات منعقد ہوئے تو فلسطینی انتظامیہ سے زیادہ حماس اور مزاحمت کار گروہ سیٹیں حاصل کر لیں گے۔
قیدیوں کی ہڑتال اور ان کے ارادوں کی کامیابی :
گزشتہ ایک سال میں جن موضوعات پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی ان میں سے ایک انتفاضہ اور مزاحمت کی حوصلہ افزائی کرنے والے اقدامات اور صیہونی حکومت کی جیلوں میں بند قیدیوں کی بھوک ہڑتال اور ان کے مقابل میں سر تسلیم خم نہ کرنا ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال محمد القیق کی بھوک ہڑتال کا موضوع ہے جن کی 94 روز سے جاری بھوک ہڑتال کے بعد صیہونی حکومت ان کو آزاد کرنے پر مجبور ہوئی۔
اسلو کے بعد کی نسل کا ظاہر ہونا :
اس انتفاضہ کی سب سے اہم خصوصیت، شہادت پسندانہ کاروائی انجام دینے والوں اور گرفتار ہونے والوں کی عمروں کا کم ہونا ہے۔ مثال کے طور پر 2016 کے شروعات سے صیہونی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں نے 18 سال سے کم عمر کے 1000 بچوں کو گرفتار کیا۔ اس اعداد و شمار میں گزشتہ سال کی بہ نسبت 80 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ انتفاضہ میں جوانوں اور نوجوانوں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ وہی جوان ہیں جو فلسطینوں کے درمیان اسلو کے بعد کے فلسطینیوں کےنام سے مشہور ہوئے۔ یہ وہی جوان تھے جو 1993 میں اسلو سازش کے بعد پیدا ہوئے اور آج اسلو کے معاہدے کو یہ جوان اپنے لئے عار کا سبب قرار دیتے ہیں ۔ مغربی کنارے پر ان جوانوں کے ظاہر ہونے سے اسلو معاہدہ پوری طرح درہم برہم ہو گیا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کی قانونی حیثیت اور اس کے مذاکرات، براہ راست اسلو معاہدے سے وابستہ ہے۔
غزہ کی مزاحمت اور انتفاضہ کو کنٹرول کرنے کی روش میں اختلافات :
انتفاضہ کے نتائج میں سے ایک فلسطینیوں سے مقابلے کی روش میں صیہونی حکام کے درمیان اختلافات کا واضح ہونا ہے۔ انتفاضہ کی شروعات میں اس وقت کے وزیر جنگ موشہ یعلون اور نتن یاہو کا یہ خیال تھا کہ انتفاضہ کو کنٹرول کرنے کا راستہ، فلسطینی انتظامیہ کے سیکورٹی اہلکاوں کے ساتھ سیکورٹی تعاون میں اضافہ اور انتفاضہ کے حامیوں سے سختنی سے نمٹنے کے لغے فلسطینی انتظامیہ کے سیکورٹی اہلکاروں کو مسلح کرنا ہے۔ اس روس کی صیہونی حکومت کے فوجی اہلکاروں اور سیاست دانوں نے شدید تنقید کی اور اسے بے فائدہ قرار دیا تھا۔
نتن یاہو حکومت کی ناکامی اور ان کے حریفوں کی تعداد میں اضافہ :
انتفاضہ قدس کے ایک سال گزرنے پر صیہونی وزیر اعظم کی شدید تنقید کی گئی۔ یعلون کے کابینہ سے نکلنے اور نتن یاہو کے خلاف ان کے خطرناک حملے نے یہ واضح کر دیا کہ نتن یاہو کی کابینہ کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔ یہاں پر یہ بھی کہا جانے لگا کہ صیہونی حکومت اپنی قانونی مدت بھی پوری نہیں کر پائے گی کیونکہ اسے متعدد قسم کے چیلنز کا سامنا ہے۔
بہرحال فلسطین کا تیسرا انتفاضہ ایسی حالت میں اپنی سالگرہ منا رہا کہ اس انتفاضہ میں فلسطینیوں نے متعدد کامیابیاں حاصل کیں ۔ اس میں 150 فلسطین شہید اور 33 صیہونی ہلاک ہوئے۔ مذکورہ انتفاضہ کو چاقوؤں کا انتفاضہ کہا گیا کیونکہ اس میں جوانوں نے چاقوؤں سے صیہونی حکومت کے اہلکاروں اور فوجیوں پر حملے کئے۔ انتفاضہ قدس نے صیہونی حکومت کی نیندیں اڑا دیں اور وہ متعدد روشوں سے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔