الوقت - ایران کے انقلاب اسلامی دستاویز مرکز نے ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت پر " ایران کے خلاف بعثی حکومت کی مسلط کردہ جنگ میں آل سعود حکومت کا کردار" کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
22 ستمبر 1980 کو عراق کی جانب سے ایران پر حملے کے آغاز نے آل سعود حکومت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے ہم منصب صدام کے ساتھ نو تشکیل حکومت اسلامی کے خلاف اقدام کرے۔ ایران کے خلاف بعثی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران سعودی عرب نے صدام کی ہر طرح کی سیاسی، مالی، خفیہ اور اسلحہ جاتی حمایت میں ذرہ برابر بھی دریغ نہیں کیا۔ یہ وہ حقیقت تھی جس کا اعتراف سعودی عرب کے فرمانروا ملک فہد نے عراق کی جانب سے کویت پر حملے کے دوران کیا تھا اور کہا تھا کہ عراقی رہنماوں کی جانب سے کویت پر حملہ، ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ میں سعودی عرب کی جانب سے عراق کی فوجی مدد کی ناشکری کی علامت ہے۔ اگر عراق کا کہنا ہے اس نے اپنے افراد کی قربان دی تو ہم بھی پیسہ، پیشرفتہ ہتھیار اور اپنے بین الاقوامی تعاون سے اس قربانی میں شریک تھے۔ وہ کس طرح ان تمام چیزوں کو فراموش کر سکتا ہے اور حقیقت کو پوشیدہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران آل سعود حکومت کا سیاسی، مالی، خفیہ اور اسلحہ جاتی کردار، اس بات کی علامت ہے سعودی عرب ایران کے اسلامی انقلاب سے کتنی دشمنی رکھتا ہے۔
ایران کو شکست دینے کے لئے آل سعود کی علاقائی کوششیں :
مسلط کردہ جنگ کے دوران سعودی عرب کے سیاسی حکام نے ایران کو الگ تھلگ اور تنہا کرنے اور عراق کی بعثی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے اپنی تمام سفارتی توانائیوں کا استعمال کیا۔ امریکا، مصر، اردن اور مغرب سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اس ملک کے مذاکرات کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ سعودی عرب نے ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے اسلامی کانفرنس تنظیم اور اس کے اعلامیہ اور قوانین میں تبدیل کیا۔ اس کے علاوہ اس نے ایران پر دباؤ ڈالنے کےلئے خلیج فارس تعاون کونسل میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی تاکہ اس طرح سے ایران پر دباؤ ڈالا جا سکے کیونکہ اس وقت اس کونسل کا سربراہ سعودی عرب تھا۔ اسی طرح سعودی عرب نے متعدد سیاسی محاذوں پر ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے متعدد بار کوششیں کیں۔
سعودی عرب کے یپٹرو ڈالر، بعثی حکومت کی توپ کے گولے :
عراق کی حمایت میں سعودی عرب کے کردار کے واضح ہو جانے کے خوف نے سعودی عرب کے حکام کو ایران کے خلاف عراق کی بعثی حکومت کی خفیہ حمایت جاری رکھنے پر مجبور کر دیا۔ سعودی عرب کے پیٹرو ڈالر، جنگ میں عراق کی بعثی حکومت کا اصل ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ خرمشہر کی آزادی اور بعثی حکومت کی شکست سے کچھ ہی دن بعد یہ انکشاف ہوا کہ ایران کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لئے صدام کو سعودی عرب اور خلیج فارس کے ہمسایہ ممالک سے 20 ارب ڈالر حاصل ہوئے تھے۔ اسی طرح بدر اور الفجر -8 آپریشن کے دوران سعودی عرب اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک نے صدام کو 29 ارب ڈالر دیئے۔ اسی طرح عراق کو سعودی عرب نے 27 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم فوجی اور اقتصادی مدد کے عنوان سے دی۔
بعثی حکومت کی امید سے زیادہ سعودی عرب کا انٹلیجنس تعاون :
در حقیقت ایک صدی کی جنگوں کے دوران عراق کے ساتھ سعودی عرب کی انٹلیجنس تعاون کو عدیم المثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ انٹلیجنس تعاون اس بات کی علامت ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے ہی سعود عرب کی حکومت، ایران کی اسلامی حکومت کو نقصان پہنچانے کے درپے رہی ہے۔ جنگ شروع ہونے سے ٹھیک ڈیڑھ ماہ پہلے سعودی عرب کے حکام نے صدام کے استقبال کے وقت اسے شاہی تحفے سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ مسلط کردہ جنگ کے دوران، سعودی حکومت نے بارہا صدام کوامریکی آواکس سمیت تمام پیشرفتہ جاسوسی کے ساز و سامان دیئے جس کی وجہ سے عراق کے خلاف ایران کے بہت سے آپریشن لیک ہوگئے۔
بعثی حکومت کو مسلح کرکے ایران کے خلاف سعودی عرب کی براہ راست جنگ :
سعودی عرب کے حکام نے نہ صرف سعودی عرب کی بعثی حکومت کے لئے پیشرفتہ ہتھیار خریدے بلکہ وہ براہ راست عراق کی لاجسٹک اور اسلحہ جاتی حمایت کر رہے تھے۔ امریکا کے اس وقت کے صدر جیمی کارٹر نے اپنی ڈائری میں ایران کی فوجی طاقت سے سعودی حکام کے خوف و ہراس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایران کے خلاف خصوصی کاروائی کے لئے سعودی حکام سے رابطہ کیا اور ان سے مشورہ کیا اور اس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کچھ اواکس طیارے علاقے میں روانہ کئے جائیں گے تاکہ ان کے دفاع میں ان کی مدد کی جا سکے۔