الوقت - دھماکوں اور بمباریوں کے بعد، ان دنوں شام کی تبدیلیوں کے بارے میں سب سے زیادہ بحث جنگ بندی کے الفاظ پر ہو رہی ہے۔ ایک ہفتہ پہلے ہی دنیا کی بڑی خبر رساں ایجنسیوں نے بڑے آب و تاب سے روس اور امریکا کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کو کوریج دیا تھا۔
جنیوا میں امریکی وزیر خارجہ اور روسی وزیر خارجہ کے درمیان پیچیدہ مذاکرات کے بعد جنگ بندی پر ہوئے معاہدے سے نامہ نگاروں کو آگاہ کیا گيا۔ ذرائع ابلاغ نے گزشتہ دوشنبے سے شروع ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جنیوا مذاکرات کے اہم نتائج میں شام میں وسیع پیمانے پر جنگ بندی کا نفاذ ہے اور اس کے ساتھ ہی امریکا نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں سے اعتدال پسند مخالفین کو جدا کرے گا۔ اس کے باوجود شام کے بارے میں جنگ بندی کا اعلان کوئی پہلی بار نہیں تھا۔ اس سے پہلے فروری 2016 میں امریکا اور روس کے درمیان تین بار جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام کی نافذ ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزی کس نے کی یا دوسرے الفاظ میں شام میں نافذ ہونے والی جنگ بندی پائدار کیوں نہیں رہی ؟
غیرمشخص اہداف :
عام طور پرجنگ بندی کے ابتدائی اہداف خونریزی، قتل وغارت کو روکنا اور انسانی امداد پہنچانا ہوتے ہیں۔ کم از کم نقصان اور بحران کو کم کرنا ایسی منطق ہے جو فریقین کو جنگ بندی کے لئے آمادہ کرتی ہے۔ شام میں جنگ بندی کے لئے کسی بھی فریق نے ان منطقی باتوں نے ذرہ برابر بھی توجہ نہیں دیا۔ در حقیقت اگر دیکھا جائے تو فریقین نے شام میں جنگ بندی کے لئے جو دعوے کئے یا نعرے بلند کئے اس کے برخلاف جنگ بندی کے دوران بہت زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچا لیکن شام میں جنگ بندی کا ہدف،انسانی جانوں کے ضیاع سے کافی فاصلے پر تھا۔ مغربی اور عرب تمام فریق نے دعوی کیا تھا کہ جنگ بندی کا اصل ہدف عام شہریوں کو نجات دلانا ہے لیکن شام کی حقیقت پر نظر ڈالنے سے یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ انہوں نے جنگ بندی کو دہشت گردوں کے جمع ہونے اور ان کو تازہ دم بنانے کے لئے حربے کے طور پر استعمال کرنا تھا۔
مغرب اور عربوں کے درمیان انتشار:
کسی بھی جنگ بندی کی کامیابی کا اہم عنصر، اس جنگ بندی کے فریقوں کا تعین ہے لیکن شام کے بارے میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ جب شام میں جنگ بندی کے بارے میں غور کیا جاتا ہے تو اس میں شام کی حکومت اور اس کے حامیوں کو ایک طرف دیکھا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں شامی حکومت کے مخالفین نظر آتے ہیں لیکن عملی طور پر شام کی جنگ میں بہت زیادہ فریقوں کا عمل دخل ہے۔ جہاں ایک طرف شام کی حکومت اور ایران اور روس جیسی اس کی حامی حکومتیں اور مزاحمت کار ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں عربوں اور مغرب پر مبنی ایک پراکندہ گروہ ہے جس میں آپس میں ہی یکجہتی نہیں ہے۔
جنگ بندی کے لئے ضمانت کا نہ ہونا
شامی حکومت کے مخالف محاذ کی پراکندگی اور ان کے اہداف کے مبہم ہونے کے علاوہ ایک اور چیز ہے جس نے شام کے فریقوں کو جنگ بندی کے حوالے سے متزلزل کر دیا تھا اور وہ تھا جنگ بندی کے نفاذ کے حوالے سے ضمانت کا نہ ہونا ہے۔ باوجود اس کے شام میں پہلی جنگ بندی 2016 میں شام کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے اسٹیفن دی میستورا کی ثالثی سے نافذ ہوئی لیکن اگر دیکھا جائے تو اس نشست میں اقوام متحدہ کے نمائندے کی حیثیت سے اسٹیفن دی مستورا کی موجوگی کی زیادہ اہمیت نہیں تھی اور وہ گزشتہ جنگ بندی کی ناکامی کا سد باب نہیں کر سکے۔ بہرحال شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزی سب سے زیادہ کس نے کی، یہ تو شامی فوج پر ہونے والی امریکی فوجیوں کی بمباری سے ہی پتا چل جاتی ہے اور اگر امریکی فوجی ایسا نہ کرتے تو آج شام کے کچھ اور ہی حالات ہوتے۔