چین کا دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت کی شکل میں سامنے آنا گزشتہ تین عشروں کے معجزوں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ تیس سال میں اوسطا دس فیصد شرح نمو کے ساتھ چین کے اقتصاد میں 17 گنا اضافہ ہوا اور تقریبا 50 کروڑ لوگ مطلق غربت کے دائرے سے نکل گئے۔ چین کی اقتصادی شرح نمو، اس نمو کی شرح سے تین گنا زیادہ تھی جس کا کم آمدنی والے ملکوں کے لئے موجودہ معیار کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔
کامیابی راز:
چین کی اس ناقابل یقین کامیابی کے بارے میں مختلف رائے ہے۔ یہ زمانے کا دستور ہے کہ جب آپ کامیاب ہوتے ہیں تو آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والے دس دعویدار پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تمام اقتصادی مکاتب فکر چاہے وہ روایتی ہوں یا جدید، چین کی شرح نمو کا سہرا اپنے سر باندھ سکتے ہیں۔ چین کے بازار کے منافع، تجارت اور گلوبلائزیشن کے نمونے کے طور پر تعریف ہوتی ہے۔اس بات میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ کارخانوں میں بننے والی مصنوعات کی برآمد یا ایکسپورٹ نے چین کی شرح نمو میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور بازار کے مطابق مصنوعات کی پیداوار کا تجارتی فیصلوں میں بڑا اہم کردار رہا ہے لیکن چین نے صنعت کے میدان میں فعال پالیسی کو قبول نہیں کیا بلکہ ٹیکنالوجی اور مہارت پر مبنی ایکسپورٹ کو بڑھاوا دیا اور تجارت کو آزاد کرنے کا عمل شروع ہونے سے ایک عشرے پہلے 1980 سے چین تیز نمو کا تجربہ کر رہا ہے۔
چھوٹے بزنس کا کردار:
اس کے علاوہ چین کے اقتصادی نمو میں 80 اور 90 کی دہائی میں شہروں اور گاؤں میں موجود اسمال اسکیل بزنس نے بھی بڑا رول ادا کیا جو اشتراکی خصوصیت کے حامل تھے۔ اس بنیاد پر عالمی تجارت کے تیزی سے نمو کرنے کے وقت سے لے کر 80 کی دہائی تک خطے کا جیومٹرک گروتھ کا مرکز چین منتقل ہو گیا اور سرمایہ کاروں نے چین میں سرمایہ کاری شروع کردی جہاں ایک ارب صارفین کی شکل میں ایک بڑا بازار موجود تھا۔
بیرونی سرمایہ کاری اور لامحدود افرادی قوت:
بیرونی سرمایہ کاروں کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ چین میں سستی و اعلی مہارت والی لامحدود افرادی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں کام کرنے کا فرھنگ بھی ہے۔ شروع میں سرمایہ کاروں کی طرف سے صنعتی و اقتصادی اکائیاں کافی مقدار میں مھیا ہو گئیں تو اقتصادی سرگرمیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فائدے سے سرمایہ کاری کا عمل تیز ہوگیا۔ جتنے زیادہ پروڈیوسروں کی تعداد چین میں بڑھی، بڑھتی سپلائی سے منافع بڑھا۔ اس بیچ چین میں دسیوں کروڑ کی تعداد میں کھیتی میں کم آمدنی کے ساتھ کرنے والوں کی تعداد کے مدنظر لوگوں کی توقعات ایسی ہوگئی کہ اس آبادی کے صنعت کی اور منتقلی کا عمل طویل مدت تک جاری رہا۔
تدریجی طور پر انٹرپرائز کو نجی شعبے کے حوالے کرنا:
اس کے علاوہ اقتصادی اصلاحات کی پہلی دو دہائی میں جو 70 کی دہائی سے 90 کی دہائی کے وسط تک جاری رہی، مقامی، شہری اور گاؤں کی سطح پر انٹرپرائز کو تشویق کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان انٹرپرائز پر مقامی حکومت کا مالکانہ حق تھا۔ ان انٹرپرائزز کا چین کی صنعتی ترقی میں بہت بڑی حصے داری تھی۔ جب چین کی اقتصاد چار گنا ترقی کر گئی تو انمیں سے زیادہ تر انٹرپرائزز 90 کی دھائی میں نجی سیکٹر کے حوالے کر دیئے گئے۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ شروعاتی اصلاحات کا فائدہ گاؤں میں کھیتی والوں کو پہونچا جہاں غریب آبادی زیادہ تھی۔ گاؤں والوں کی آمدنی بڑھنے سے غربت میں کمی آئی۔
چین کم قدرتی ذخائر کا حامل ملک:
چین مشرقی ایشیا کے دوسرے ملکوں کی مقابلے میں قدرتی ذخائر کے لحاظ سے نسبتا کم منابع کا حامل ملک ہے۔ بہت سے اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ قدرتی ذخائر کی کمی ایک لحاظ سے امتیاز ہے۔ قدرتی ذخائر کی فراوانی بھی ان پر قبضہ کرنے کے لئے سیاسی ٹکراو کو ہوادیتی ہے جبکہ صنعتکاری کی کامیابی کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب آپ کے پاس قدرتی ذخائر نہ ہو۔ ایسی حالت میں مہارت اور ٹکنالوجی میں بہت ترقی ہوتی ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی مشرقی ایشیا افریقا اور ترقی پذیر ملکوں کی بہ نسبت کئی لحاظ سے بہتر پوزیشن میں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ چین نے نمو کی اس روش کو بدل دیا ہے جسکے بارے میں دوسرے سوچتے ہیں۔ چین نے سب کو اس طرف سے مطمئن کر دیا ہے کہ مشرقی ایشیا میں اقتصادی ترقی کوئی اتقاق نہیں ہے۔