الوقت - مشرق وسطی کی تبدیل ہوتی صورتحال نے بحران زدہ ممالک کو سیکورٹی اور سیاسی لحاظ سے متاثر کرنے کے علاوہ اسرائیل کے امن و سکون کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جیسا کہ بہت سے اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ داعش کے ظاہر ہونے سے اگرچہ کچھ عرصے کے لئے اسرائیل کے مفاد پورے ہوں گے لیکن طویل مدت میں اسرائیل کو خارجی اور داخلی دونوں طور پر متاثر کر سکتا ہے۔
اسی تناظر میں صیہونی حکام نے بھی اپنے عرب شہریوں کے درمیان سلفیوں کے تباہ کن نظریات سے پھلنے پھولنے سے روکنے کے لئے مستقبل میں اس پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خارجی طررپر جولان کی سرحد تک مزاحمتی محور کا نفوذ بھی اسرائیل کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا گيا ہے۔ ان سب سے باوجود مسئلہ فلسطین کو اسرائیل کے سامنے موجود سب سے اہم کشمکش کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیلی حکام نے اپنی نشستوں میں موجودہ بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ سے اہم اسٹرٹیجی کو مد نظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے :
1- اسرائیل کا داخلی محاذ :
اس محاذ میں سب سے اہم ترجیح کو عربوں، اسرائیل اور یہودیوں کے درمیان اختلافات میں کمی میں تلاش کیا جانا چاہئے۔ مشترکہ مفاد کے سایہ میں مل جل کر رہنے کی ترویج سے اسرائیل کا داخلی محاذ بہت مضبوط ہوا ہے اور اسرائیلی معاشرے میں قومیت تقریبا ختم ہی ہو گئی ہے۔ ان حالات میں اسرائیل میں موجود عرب داعش کے وحشیانہ اقدامات کو دیکھ کر اسرائیل کی جانب رجحان رکھنے لگے۔
2- مسئلہ فلسطین :
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کی صورتحال میں تبدیلی، اسرائیل کے لئے کامیابی تصور کی جاتی ہے۔ 2015 کے دہشت گردانہ حملوں کی لہر، در حقیقت حالات کو تبدیل کرنے کی روش اختیار کرنے کی اہمیت کو یاد دلاتی ہیں لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک کسی بھی طرح کی سیاسی راہ حل کی تجویز پیش نہیں کی گئي ہے۔ اسی لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ ایک مثبت اور تعمیری مذاکرات کی پیشکش، اردن اور مصر کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کو مضبوط کر دے گی۔
3- اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعاون کو حتمی شکل دینا
علاقے کے سنی ممالک کے ساتھ مشترکہ مفاد اورایران کو کمزور کرکے اسرائیل اقتصادی ، ٹکنالوجی، پانی، زراعت اور توانائی کے شعبے میں اپنے پروگرامز کو نتجے تک پہنچا سکتا ہے اور اس کے مقابلے میں مذکورہ ممالک اسرائیل کے ساتھ فلسطینی حکومت کی تشکیل میں مدد کریں۔ اس کے بدلے میں وہ ان ممالک کے تھوڑی بہت مراعات کی لالی پاپ دے کر چلتا کرے گا۔ اسرائیل اس کام سے اپنی سرحدوں کو پرامن اور پرسکون رکھنا چاہتا ہے۔
4- دنیا کے طاقتور ممالک کی سطح پر :
موجود وقت میں سب سے زیادہ ترجیحی موضوع، امریکا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے درمیان بہت زیادہ نزدیکی تعلقات ہونے کے باوجود سیاسی لحاظ سے اختلافات نے اسرائیل کے لئے علاقے میں حالات کو ناسازگار بنا دیا ہے۔ اسی لئے صیہونی حکام کے لئے سب سے اہم چیز یہ سمجھی جاتی ہے وہ مشترکہ اعتماد بحالی اور امریکا کے ساتھ مکمل تعاون کے لئے کوشش کریں۔ شام میں مداخلت کے ذریعے علاقے میں روس کی بھرپور موجودگی نے اسرائيل کو سنہری موقع فراہم کر دیا ہے۔
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی حکام حزب اللہ لبنان کو اسرائیل کے سامنے سب سے بڑابحران سمجھتے ہیں اور حزب کے پیشرفتہ میزائیلوں اور راکٹوں سے مسلح ہونے سے ان کی تشوشی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے خاص طور پر حزب نے شام کی جنگ میں بہت ہی عظیم تجربات حاصل کئے ہیں۔