الوقت - اس سال سعودی عرب کے حکام نے ایرانی زائروں کو مناسک حج انجام دینے کی اجازت نہیں دی۔ آل سعود حکومت نے ایران کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دیتے ہوئے اور ایران کے خلاف اپنی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مناسک حج سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور حج کو ایک سیاسی حربے کو طور پر استعمال کرکے وہ ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کشمکش کے درمیان ایرانی زائرین اس سال کعبے کی زیارت سے مشرف نہیں ہو سکے لیکن کہانی یہی ختم نہیں ہوئی۔ ان سب سے باوجود عینی شاہدین کے مطابق اس کے سال کے حج میں کچھ زیادہ رونق نہیں تھی اس کے باوجود سعودی عرب کے حکام نے زائروں پر اپنا پر تشدد رویہ جاری رکھا اور ان کے بس میں جتنا تھا حاجیوں اور خانہ خدا کے زائرین کو پریشان کر رہے تھے۔ یہ توعام زائرین کی بات ہے لیکن شیعہ زائرین پر تو اس سے زیادہ ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور انہیں متعدد قسم کی پریشانیوں میں مبتلا کر رہے تھے۔ اس سال حج سے مشرف ہونے والی سنی حاجیوں کے بقول اس سال سعودی عرب کے سیکورٹی اہلکاروں نے حاجیوں کی بہت زیادہ اہانت کی۔
سعودی عرب کی حکومت نے بتایا کہ اس سال حاجیوں کی تعداد 13 لاکھ تھی جبکہ گزشتہ سال تقریبا 31 لاکھ حاجیوں نے حج کیا تھا۔ سالہائے گزشتہ کی بہ نسبت اس سال حاجیوں کی تعداد بہت زیادہ کم تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ سعودی عرب کے سیکورٹی اہلکار حاجیوں کی کم تعداد کی وجہ سے ان سے اچھا سلوک کریں گے اور نرم دلی کا اظہار کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عینی شاہدین نے ایرانی سفارتکاروں کو بتایا کہ سعودی عرب کے سیکورٹی اہلکار متعدد بہانوں سے حاجیوں کو ہراساں اور پرشان کر رہے تھے۔
یہاں پر ہم عینی شاہدین کے حوالے سے کچھ واقعات بیان کر رہے ہیں۔ ان افراد نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کچھ اہم راز کا انکشاف کیا۔ ان میں سے ایک نے ایرانی سفارتکار کو بتایا کہ فضا پوری طرح سیکورٹی سے پر تھی، اینٹرنیٹ کی اسپیڈ جان بوجھ کر کم کر دی گئی تھی، یہ حاجیوں کے باہر کی دنیا سے رابطے کو کمزورکرنے کی کوشش تھی۔ سوشل میڈیا عام طور پر کٹا ہوا تھا اور وی پی این کے ذریعے سعودی عرب کے فلٹر کو توڑا جا سکتا تھا اور اس کے بعد اپنے گھروالوں سے رابطہ کیا جا سکتا تھا۔ سعودی عرب کے سیکورٹی اہلکار سایہ کی طرح ہمیشہ ساتھ ہوتے تھے۔
ان کا کہنا تھاکہ اس سال گزشتہ سال کی بہ نسبت زیادہ اژدھام نہیں تھا۔ اس چیز نے حاجیوں کو پر امن اور زیادہ سکون سے مناسک جح بجا لانے کی زمین ہموار کی تاہم سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے جس کی وجہ سے حاجی خوف و ہراس میں مناسک حج انجام دے رہے تھے۔ ایک دوسرے حاجی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے سیکورٹی اہلکار ایرانی حاجیوں کی جانب سے بہت حساس تھے۔ ان کی تمام کوشش کسی بھی طرح ایرانی حاجیوں کو دباؤ میں لانا تاکہ اس طرح ایران کی حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ اس کے باوجود کچھ ایرانی زائرین نے دوسرے ملکوں سے سعودی عرب کا ویزا حاصل کر لیا تھا اور وہ قانونی طور پر مناسک حج انجام دینے سعودی عرب پہنچے تھے لیکن سعودی عرب کی حکومت ان کے ساتھ بھی برا سلوک کر رہی تھی۔
اس حاجی کا کہنا تھا کہ دباؤ صرف ایرانیوں پر ہی نہیں ڈالا جا رہا تھا، دنیا میں وہابیت روز بہ روز نفرت کے قابل ہوتی جا رہی ہے۔ اہل سنت والجماعت، وہابی اور سلفیوں سے اپنا راستہ الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سعودی عرب کا حکمراں خاندان اس حوالے سے بہت زیادہ تشویش میں مبتلا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب کے سیکورٹی اہلکاروں نے لبنان، ٹیونس، الجزائر جیسے ممالک کے حاجیوں سے بدسلوکی اور ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔ حاجیوں کے ساتھ ایسا سلوک بہت ہی برا ہے کیونکہ ہم سب کے نزدیک حاجیوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور لوگ اس عظیم عبادت پر جانے والوں کو عظیم الشان طریقے سے رخصت کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے گھر کا مہمان ہے لیکن سعودی عرب کے سیکورٹی اہلکاروں کو اس کا ذرہ برابر بھی پاس نہیں تھا۔