الوقت - حالیہ برسوں میں خاص طور پر شاہ سلمان کی حکومت کے زمانے میں سعودی عرب نے اپنے پیٹرو ڈالر کو جارحانہ پالیسی کے لئے استعمال کیا اور انہوں نے تکفیری اور دہشت گردانہ پالیسیوں کو شدید کرنے پر توجہ دی اور انہوں نے اس کام کے لئے اپنے اتحادیوں کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد کی۔ یمن پر فوجی حملہ اور اس ملک کے عام شہریوں کا قتل عام، شام اور عراق میں سرگرم تکفری دہشت گردوں کی کھلی مالی اور اسلحہ جاتی مدد اور علاقے میں ایران مخالف پالیسی پر عمل پیرا ہونا، سعودی عرب کی جارحانہ پالیسیوں کے پہلو ہیں جو اس نے پیٹروڈالر کی مدد سے آگے بڑھایا ہے۔
موجود مقالے میں علاقے میں سعودی عرب کی پیٹرو ڈالر کی پالیسیوں کے کچھ پہلوؤں پر نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے پہلے تو ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پیٹرو ڈالر کا مطلب کیا ہے اور اس کے بعد ہم پیٹرو ڈالر کی بنیاد پر سعودی عرب کی جارحانہ پالیسیوں کا تجزیہ پیش کریں گے۔
پیٹرو ڈالر :
پیٹرو ڈالر ان ڈالرز کو کہا جاتا ہے کو تیل کی فروخت سے کسی ملک کو حاصل ہوتے ہیں۔ جن ممالک کا اقتصادی نظام تیل کی فروخت پر منحصر ہوتا ہے، ان کو پیٹرو ڈالر کا نام دیا جاتا ہے۔ 70 کے عشرے میں جب تیل کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا، امریکا اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے خفیہ سمجھوتے کا آغاز ہوا۔ 1974 میں سعودی عرب نے، ریاض اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والے خفیہ سمجھوتے کی بنیاد پر یہ قبول کیا کہ اس کے تیل کے تمام معاہدے ڈالر کی بنیاد پر ہوں گے اور وہ امریکی شیئر کمپنی اور امریکی وزارت خزانہ کے پانڈز میں سرمایہ کاری کرے گا، اس کے مقابلے میں امریکی حکومت نے وعدہ کیا کہ وہ روس کے مقابلے میں اور ایران اور عراق جیسے ممالک کے مقابلے میں سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں کی حفاظت کرے گا اور سعودی عرب کے فوجی ضرورتوں اور ساز و سامان کو پورا کرے گا۔ 1975 میں اوپک کے تمام ارکان نے اپنے تیل ڈالر میں فروخت کرنے پر اتفاق کر لیا۔ سعودی عرب دنیا میں خام تیل کو برآمد کرنے والی دوسرا سب سے بڑا ملک ہے ۔ اس ملک کے پاس دنیا کے خام تیل کا 16 فیصد ذخیرہ ہے۔
1- سعودی عرب کے پیٹرو ڈالر کی پالیسی کے جارحانہ اور دہشت گردانہ پہلو:
سعودی عرب نے تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اتنے زیادہ ہتھیار اور گولہ بارود خرید لئے کہ وہ مغربی ایشیا کا سب سے بڑا اسلحہ خریدنے والا ملک بن گیا ہے۔ اسلحوں کی یہ خریداری سب سے زیادہ امریکا سے پھر برطانیہ، فرانس اور یورپ کے دوسرے ممالک سے انجام پائی ہے۔ اسٹاکہوم امن تحقیقاتی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ دس برسوں میں سعودی عرب کا فوجی بحٹ دو گنا ہو گیا ہے۔ موجود وقت میں صرف امریکا، چین اور روس کا بجٹ ہی سعودی عرب سے زیادہ ہے۔
2- یمن پر حملہ اور بے گناہ بچوں اور عوام کا قتل عام :
سعودی عرب نے پیٹرو ڈالر سے حاصل آمدنی کے زور پر اپنی مخاصمانہ اور مداخلت پسندانہ پالیسیاں جاری رکھتے ہوئے یمن کے عوام خاص طور پر اس ملک کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر حملے شروع کر دیئے۔ یہ جنگ جو علاقے کی تبدیلیوں سے آل سعودی کے جنون کی نشانی ہے، عرب ممالک کے داخلی امور میں سعودی عرب کی مداخلت کا پختہ ثبوت ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب نے عام شہریوں، بچوں، خواتین، ملک کے بنیادی ڈھانچوں، اسکولوں، اسپتالوں اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنایا۔
4 - علاقے میں ایران مخالف پالیسی :
سعودی عرب نے ماضی سے خاص طور پر حالیہ برسوں میں تسلط پسند طاقتوں خاص طور پر صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرے ایران سے ساتھ مکمل طور پر اپنے تعلقات خراب کر لئے۔ دہشت گرد گروہ ایم کیو ایم کی مالی اور سیاسی حمایت، صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا، علاقائی اتحادوں اور تنظیموں میں ایران کو نظر انداز کرنا، ایرانی عوام کو حج سے روکنا، تیل کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ، تیل کی قیمت کو کم رکھنے کی کوشش اور ایران کے خلاف سعودی عرب کے حکام کے مسلسل بیانات نیز ایران کے خلاف لابی تیار کرنا، حالیہ برسوں میں سعودی عرب کی ایران مخالف پالیسیوں کا حصہ ہیں۔
بہرحال سعودی عرب نے علاقے میں اپنی ایران مخالف پالیسیوں اور مخاصمانہ پالیسیوں سے علاقے میں تباہی پھیلا رکھی ہے جس سے علاقے کی مسلمان قوموں کو کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح ایران کو بھی بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب شکایت کرنی چاہئے اور سعودی عرب کے داخلی مسائل اور اختلافاب پر توجہ دینی چاہئے۔ رای عامہ در حقیقت سعودی عرب کے خلاف ہے اور ایران کو اس موضوع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔