الوقت - گزشتہ مہینوں خاص طور پر حالیہ ہفتوں کے دوران میڈیا اور علاقے کی صورتحال پر نظر رکھنے والے تمام اداروں نے مختلف قسم کی خبریں شائع کیں جن میں ایک بات مشترک تھی اور وہ تھی داعش کی شکست اور متعدد محاذوں سے اس کی پسپائی۔ شہر اور صوبے دھیرے دھیرے اس گروہ کے قبضے سے آزاد ہو رہے ہیں اور عراق اور شام کی سیکورٹی کی کمزوری کا فائد اٹھا اس گروہ نے شام اور عراق کے وسیع و عریض علاقوں پر جو قبضہ کیا تو ان پر اب آہستہ آہستہ عراق اور شام کی حکومتوں کا پرچم لہرا رہا ہے۔
رمادی، تکریت، سنجار، موصل، فلوجہ، رقہ، تدمر، کوبانی اور تل ابیض وہ علاقے اور شہر تھے جن پر تقریبا ایک سال سے داعش کا قبضہ تھا لیکن مذکورہ بالا ناموں میں صرف موصل اور رقہ ہی ایسے شہر ہیں جن پر اب بھی داعش کا کنٹرول ہے۔ شام کی سرحدوں سے داعش کی سپلائی لائن کاٹنے سے یہ گروہ فوجی لحاظ سے کمزور ہوا ہے خاص طور پر ترکی کی سرحد پر تھوڑا سے روکاٹ پیدا ہونے کی وجہ سے اس گروہ کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہیں دوسری طرف اس گروہ کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تل کی فروخت بھی ختم ہو گئی ہے۔ شام اور عراق میں داعش کی مسلسل شکست کے کچھ اسباب بیان کئے گئے ہیں :
1 – علاقائی اور علاقے سے باہر کی حمایتوں میں کمی
داعش کی تشکیل کے آغاز میں ہی علاقے کے کچھ ممالک کی خفیہ، فوجی اور مالی حمایت اسے حاصل رہی، البتہ یہ بات صرف داعش سے منحصر نہیں ہے بلکہ علاقے میں سرگرم دوسرے دہشت گرد گروہوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اب تک بہت سے ایسے ثبوت ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کو سعودی عرب، امارات، قطر اور ترکی جیسے بہت سے علاقائی ممالک کی فوجی، مالی اور ٹکنالوجی کی حمایت حاصل ہے۔ یہ ثبوت ویڈیو فلم اور فوٹو کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچ چکی ہے۔
2- داعش سے مقابلکے لئے علاقے کے باہر کی فوجی حمایت :
امریکا کی قیادت میں داعش سے مقابل کے لئے بنے عالمی اتحاد میں دنیا کے 40 سے زیادہ ممالک شامل ہیں جو عراق اور شام میں داعش کے دہشت گردوں کے خلاف ہوائی حملے کرتے ہیں اور کبھی کبھی محدود سطح پر زمینی کاروائی میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے بھی 14 ستمبر 2015 کو الگ سے داعش کے خلاف ہوائی حملے شروع کئے لیکن یہ غلطی نہیں کرنی چاہئے، بے شک شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے کرکے اس اتحاد نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اس کامیابی کا سہرا اس اتحاد کے سر نہیں بندھتا بلکہ علاقے میں روس اور مزاحمت کے محاذ کی موجودگی ہی اس کامیابی کی مرہون منت ہے۔
3- قومی اتحاد اور سیاسی اختلافات میں کمی :
جون 2014 کو جب داعش نے بہت ہی کم وقت میں عراق کے ایک وسیع و عریض علاقے پر قبضہ کر لیا، یعنی انبار سے موصل تک داعش کا سیاہ پرچم ہی لہرا رہا تھا، اس میں 2003 میں امریکی فوجی حملے کے بعد سے ایک نیا سیاسی بحران شروع ہو گیا۔ یہ سیاسی بحران اتنا شدید تھا کہ اس نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پورے ملک میں افراتفری مچی ہوئی تھی اور اسی سیاسی جھگڑے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے داعش نے سنی اکثریتی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا لیکن بعد میں عراقی عوام اور سیاست دانوں نے حالات کی حساسیت کو درک کرتے ہوئے اپنے اختلافات دور کئے اور نئے عراق کی بنیاد رکھنے کے لئے قدم بڑھایا۔
4 - مزاحمت :
علاقے کے بدلتے منظر نامے پر اگر ایک نظر ڈالیں تو سمجھ میں آجاتاہے کہ داعش کے خلاف میدان جنگ میں مزاحمت نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے اور دہشت گردون اور ان کے آقاؤں کو ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ وہ زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ گرچہ عراق اور شام میں داعش کی شکست اور پسپائی میں مذکورہ بالا تین عناصر نے اہم کردار ادا کیا ہے تاہم میدان جنگ کی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر مزاحمت نہ ہوتی تو دنیا ایک الگ ہی منظر پیش کر رہی ہوتی۔