الوقت - پاکستان کے مشہور و معروف سیاست داں اور مذہبی رہنما طاہر القادری نے 2011 کے شروع میں اور 2014 کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کی قیادت کی تھی اور انہوں نے اپنے مظاہروں کا ہدف، پاکستان میں ایک انقلاب لانا قرار دیا تھا۔ انہوں نے ستمبر 2014 کئی مہینے ہڑتال اور مظاہرہ کرنے کے بعد ایک بار لندن واپس گئے اور وہاں سے کنیڈا گئے۔ اس کے بعد وہ پھر پاکستان لوٹے تحریک قصاص کی قیادت کی۔ طاہر القادری کی سربراہی میں عوامی تحریک پارٹی نے ستمبر کے مہینے میں پاکستان کے متعدد شہروں ملتان، لاہور، راولپنڈی، کراچی اور کوئٹہ میں مظاہرے کئے۔ طاہر القادری نے بھی ملک میں اسلام آباد حکومت کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے اپنے مظاہروں کا دائرہ وسیع کرنے پر تاکید کی۔ یہ مظاہرے تحریک قصاص کے عنوان سے پورے پاکستان میں شروع ہوئے اور عوام نے اس مظاہروں میں دو سال پیش لاہور میں اپنے ساتھیوں کی ہلاکت کا قصاص لینے کا مطالبہ کیا۔
قابل ذکر ہے کہ 2014 میں پاکستان لوٹتے وقت نواز شریف کی حکومت نے طاہر القادری کے جہاز کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دی اور آخرکار انہیں لاہور جانا پڑا۔ حکومت مخالف مظاہروں کے دوران پولیس کی براہ راست فائرنگ میں طاہر القادری کے 14 سے زائد حامی ہلاک اور دسیوں ديگر زخمی ہوئے تھے۔ ابھی طاہر القادری نے مارے گئے لوگوں کی حمایت اور نواز شریف کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف، غریبی اور کرپشن کے خلاف اپنی تحریک جاری ہی رکھی اور یہ اندازہ لگایا جانے لگا کہ طاہر القادری کا مظاہرہ دوسری ہی شکل میں جاری رہے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طاہر القادری نے اپنے حامیوں کے ساتھ حکومت کے خلاف مظاہرے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اور کس طرح برطانیہ اور کنیڈا سے لوٹنے کے بعد عالی شان مظاہروں کی قیادت کی، یہ سب شک کے دائر میں آتا ہے، خاص طور پر اگر کسی شخصکو فوج، حکومت اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہ ہو، وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔
اس بیان میں بتایا گیا ہے کہ طاہر القادری کی تحریک نے مختلف شعبوں میں حکومت کی ناتوانی اور ناکامی کے بارے میں مسلسل گفتگو کی اور ایک طرح سے پشت پردہ فوج کے ساتھ رابطہ بھی برقرار رکھا۔ یہی سبب ہے کہ 2014 کے موسم خزاں میں نواز شریف کی حکومت اور فوج کے درمیان جاری اختلافات کے ختم ہونے کے بعد طاہر القادری نے اپنی انقلابی تحریک کو بیچ میں ادھورا چھوڑ کر کنیڈا چلے گئے۔ در حقیقت فوج، عوامی ليگ اور مسلم ليگ کو کنٹرول کرنے کے لئے تیسرے دھڑے کو وجود میں لانے کی کوشش میں ہے اور طاہر القادری کی تحریک اور ملک کی چھوٹی موٹی پارٹیوں کا اتحاد فوج کے ساتھ مل کر مضبوط حکومت کی تشکیل کی کوشش میں ہے۔
حالیہ برسوں میں عوامی لیگ کے رہنما طاہر القادری نے ایسی پالیسیاں اختیار کی ہیں جس پر آج تک بحث جاری ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے زمانے میں طاہر القادری ان چندہ افراد میں تھے جنہوں نے پرویز مشرف کی حکومت کی تائید کی تھی اور سیاسی پارٹیوں کو کرپٹ اور بے کار قرار دیا تھا اور پرویز مشرف کو ملک کا نجات دھندے کے طور پر یاد کیا تھا۔ اسی وقت سے بہت سے تجزیہ نگاروں نے تحریک منہاج القرآن اور فوجی جنرلوں کے درمیان ایک طرح کے خفیہ تعلقات کی باتیں کہی تھیں اور یہ شکوک و شبہات اب بھی بدستور جاری ہے۔ اس طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تحریک منہاج القرآن اور طاہر القادری کی شخصیت، آئی ایس آئی کا خفیہ کارڈ ہے جسے فوج موقع پر اپنے اہداف و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔