الوقت - فرانس کی قومی اسمبلی کے سابق رکن، فرانس - ایران دوستی نیز فرانس - شام دوستی کے شعبے کے سربراہ جیرارڈ پابٹ نے گزذشتہ ہفتے ایران کا دورہ کیا ۔
انہوں نے اپنے پہلے دورہ ایران میں الوقت کے رپورٹر کے ساتھ گفتگو میں شام کی بدلتی ہوئی صورتحال اور شامی محاذ پر مغربی اور عربی اثر و رسوخ کے حوالے سے اپنا موقف بیان کیا۔
ستر سالہ جیرارڈ پابت نے بحران شام کے پس پردہ اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں اس بحران کے خاتمے کے لیے دو راہ حل ہیں مگر جتنی جلدی ہو سکے دونوں کی راہوں کو ایک ساتھ ہی نافذ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے شام کے عوام متحد ہو کر ایک مستقل سیاسی نظام کی بنیاد رکھیں لیکن یہ راہ حل صرف شامی عوام کے درمیان مفاہمت سے ہی مربوط ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ خطہ کے ممالک جو اس جنگ میں ملوث اور اسی طرح دیگر ممالک جو اس مسئلہ کے حل کے لیے مدد کر سکتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ ہماہنگ سفارتکاری کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں، اسی طرح جیسے ہم نے حالیہ دنوں میں ترکی کی سیاست میں مشاہدہ کیا، جس میں ایک حد تک تبدیلیاں رونما ہوئی اور یہ مسئلہ شام کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے ۔
انہوں نے بحران شام میں مغربی طاقتوں کے مؤثر اور اہم کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ مسئلہ کے حل کے لیے مغربی ممالک نے طاقت کا ستعمال کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ مغربی ممالک نے علاقے کے امن و استحکام کو کو دہشت گردی کی حمایت کر کے درہم برہم کرنے کی کوشش کی تاہم یہ ناامنی دہشت گردوں کے حملوں کی صورت میں بہت جلد خود یورپ کے شہروں کی طرف پلٹ گئی اور یہ یورپی یونین کی غلطیوں کا ہی تاوان ہے جو در حقیقت دہشت گردوں کی صورت میں خود ان کی طرف پلٹا ہے اور طبیعی طور پر اس مسئلے نے اپنے اثرات یورپ پر مرتب کئے ہیں۔
جیرارڈ پابٹ نے شام میں خلیج فارس کے ممالک کے کردار پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان ممالک نے تیل اور ڈالر کو اپنا اصلی ہدف بنایا اور اسی لئے ان مغربی ممالک کے ساتھ ہوگئے جو شام کے مخالف تھے تاہم یہ بھی بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ یہ چاہتے ہیں کہ خطہ کے بد امن کر دیں اور خود ان ممالک کو بھی سیکورٹی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔