الوقت – امت اسلامیہ کے درمیان شدید اختلافات اور ایک دوسرے پر تکفیریت کے الزامات ان دنوں عام بات ہوگئی ہے۔ اسی چيز نے اتحاد بین المسملین کی ضرورت کو پہلے سے زیادہ لازمی قرار دے دیا ہے۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے چیچنیا کے شہر گروزنی میں اہل سنت و الجماعت کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تاہم اس کانفرنس سے سلفیوں اور وہابیوں کو دور ہی رکھا گیا۔ اس کانفرنس میں جامعۃ الازہر کے پروفیسر، اساتذہ اور علماء کرام نے شرکت کی۔ ہم نے مذکورہ کانفرنس کے بارے میں جامعۃ الازہر کے مفتی شیخ احمد کریمہ سے گفتگو کی ۔
سوال : گروزنی میں اہل سنت و الجماعت کی کانفرنس کا کیا پیغام تھا، خاص طور پر موجود وقت میں ؟
شیخ احمد : سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گروزنی میں ہونے والی اہل سنت و الجماعت کانفرنس نے سلفی اور وہابیوں کو دور رہی رکھا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اہل سنت و الجماعت سے ہیں۔ وہ مرکزی ایشیا کے علاقے میں انتہا پسندی کی حمایت کرتے ہیں اور القاعدہ، بوکوحرام، داعش اور طالبان جیسے انتہا پسند گروہوں کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ وہابی افکار کے حامیوں نے تاجکستان، ازبکستان، چیچنیا اور علاقے کے دوسرے ممالک اور ریاستوں میں انتہا پسندی اور متشدد افکار رائج کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جامعۃ الازبر کسی کے بھی خلاف نہں ہے اور نہ ہی کسی قابل قبلہ کو کافر قرار دیتا ہے۔ ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ شیعہ، زیدی، امامی اور اباضی تمام کے تمام مسلمان ہیں اور خدا وند متعال پر ایمان رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے تک الازہر نے کسی کو کچھ بھی نہیں کہا، یہ خوارج ہیں، گمراہ فرقہ ہے جس نے امام اباالحسن اشعری اور امام ابو المنصور الماتریدی کو کافر قرار دیا، حتی جامعۃ الازہر، شیعہ، زیدی اور اباضیہ فرقے تک کو انہوں نے کافر قرار دے دیا۔
سوال : آپ کی نظر میں مذکورہ کانفرنس میں سعودی علماء دین اور وہابیوں کو شرکت کی دعوت کیوں نہیں دی گئی۔
شیخ احمد : سب سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کانفرنس کا انعقاد کرنے والی حکومت چیچنیا کی حکومت تھی اور جامعۃ الازہر تو صرف ایک مہمان کی حیثیت سے شریک ہوا۔ اب یہ الزاما عائد کرنا ہوگا کہ جامعۃ الازہر نے وہابی علماء کی شرکت پر روک لگوا دی، سراسر غلط اور بہتان ہیں۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ مرکزی ایشیا کی حکومتیں وہابی اور سلفی افکار سے بری طرح پریشان ہیں، جوانوں کے افکار کون خراب کر رہا ہے؟ دہشت گردی اور لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے والی وہابی افکار کے علاوہ اور کون فکر ہے؟ اب اس طرح کا نظریہ رکھنے والے افراد کس طرح وحدت کانفرنس میں شرکت کر سکتے ہیں۔ اسلام سے روگران ہونے والوں کو کیسے اتحاد کی دعوت دی جائے گی۔ جنہوں نے شام، یمن اور عراق کو تباہ کر دیا، ان ممالک میں فرقہ واریت کو ہوا دی، ہم کیسے ان کو کانفرنس کی دعوت دیتے جو ہم پر کفر کا فتوی جاری کر رہے ہیں۔ میرا مطلب ابن باز کے فتوی ہیں۔ سعودیوں کی نظر میں مصری عوام بدعت پھیلانے والے ہیں کیونکہ وہ اہل بیت رسول کا خاص احترام کرتے ہیں، مصری جوان شیعہ اور سنی کے بارے میں نہیں جانتا، وہ اولیاء کرام اور صحابہ کرام کے مرقد پر جاتا ہے کیونکہ اہل بیت کی محبت فطری ہے۔ ہمارے ملک اور ہمارا علاقہ حضرت امام حسین کے سر مبارک اور حضرت زینب کے مرقد مطہر سے پاک اور شفاف ہے۔ پورے مصر میں 1500 سے زائد امام زادے اور صالحین کی قبریں ہیں۔
سوال : کہا جاتا ہے کہ مدینہ منورہ اور جامعۃ الازہر میں اہل سنت و الجماعت کی قیادت کو لے گر رسا کشی چل رہی ہے، کیا وہابیوں کو کانفرنس سے دور رکھ کر کوئی خاص پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے؟
شیخ احمد : یہ بات کسی سے پوشیدہ نہيں ہے کہ جامعۃ الازہر نے عالم اسلام کی بہت زیادہ خدمت کی ہے۔ کسی کانفرنس کا انعقاد ہمارے مقام اور منزلت میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ یہاں پر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گرد مرکزی ایشا سے آتے ہیں، یعنی دنیا کے 70 فیصد دہشت گردوں کا تعلق مرکزی ایشا سے ہے۔ ان کو کس سے پہنچایا؟ ظاہر سی بات ہے وہابی افکار نے۔ پوری دنیا میں سعودی عرب کے زیر اہتمام دینی مدارس بھرے پڑے ہیں اور یہ وہابی افکار کو رائج کرنے کا مقدمہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ جامعۃ الازہر صدیوں سے اسلام اور مسلمین کی خدمت کر رہا ہے اور سعودی عرب صرف وہابی افکار کو رائج کر رہا ہے۔ سعودی اسلام اور پوردی دنیا میں رائج اسلام میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اسی لئے مذکورہ کانفرنس سے سعودی علماء کو دور رکھا گیا تاکہ عالم اسلام اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ ہمار اور سعودی عرب کے اسلام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔