الوقت - سانحہ منا میں سعودی عرب کے حکام کی ذمہ داری میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اب سوال یہ ہے یہ ذمہ داری کو کہاں باضابطہ قبول کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ افسوس کے اس مسئلے میں کافی لیت لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی قوانین اور اصول و ضوابط کے مطابق ہر حکومت جو کسی بھی ملک کے شہری کو اپنے یہاں داخل ہونے کے لئے ويزا جاری کرتی ہے، ان کو ملک کے قوانین کی پابندی کرنی ہوتی اور حکومت بھی قانون کے مطابق اس کے جان و مال کی حفاظت کرتی ہے، ان کے نسلی امتیاز نہیں کرتی اور ان ہر ممکنہ حمایت اور حفاظت کرتی ہے۔
اس بنیاد پر اگر کوئی حکومت اپنی ذمہ داریوں اور وظائف پر عمل نہ کرے تو در حقیقت اس نے اپنے بین الاقوامی وعدوں، ذمہ داریوں اور پابندیوں پر عمل نہیں کیا ہے اور ان کو پائمال کر دیا ہے۔ یہ ذمہ داری مناسک حج کے وقت دوگنی ہو جاتی ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور اصول کے علاوہ بھی دینی تعلیمات بھی اس بات پر تاکید کرتی ہیں اور اس سے حکومت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ دنیا میں سب سے قدیمی اور عدیم المثال مراسم، جو آج دنیا میں انجام دیئے جاتے ہیں، وہ مناسک حج ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت نے کئی برسوں کے دوران، ان کچھ دنوں میں جب حاجی منا اور عرفات میں جاتے ہیں، ان کی سیکورٹی پر نظر نہیں رکھتی ہے اور کوئی بھی نظم و نسق وہاں نہیں ہوتا، اس موضوع کو میں نے خود ایام حج میں مشاہدہ کیا تھا۔ اتنی زیادہ بھیڑ اور اتنے زیادہ افراد کے ہونے کے باوجود کسی بھی طرح کا کوئی نظم و نسق نہیں پایا جاتا اور ایک چھوٹا سا حادثہ بہت زیادہ لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔
اسی لئے اس حوالے سے سعودی عرب کی حکومت قانونی اور دینی دونوں لحاظ سے ذمہ دار ہے اور بے شک حاجیوں کا ناحق خون اس کی گردن پر جائے گا لیکن اہم بات یہ ہے کہ کس طرح مجرم افراد کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں افسوسناک بات یہ کہ بین الاقوامی سطح پر کمیاں بہت زیادہ ہیں۔
عام طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ بین الاقوامی تنظیمیں صرف اس حکومت کی موافقت سے ہی ایک حکومت کے خلاف ہيگ کی بین الاقوامی عدالت میں شکایت کر سکتی ہیں تاکہ اس حکومت کے خلاف کاروائی کی جا سکے۔
بین الاقوامی فوجداری کی عدالت بھی فوجداری کا پہلو رکھتی ہیں اور اس کا ہیڈکوراٹر ہیگ میں ہے۔ اس عدالت تک پہجنے کے لئے ایک آدمی کی جوتیاں گھس جاتی ہیں اور کوئی عام آدمی وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ امکان اس بات ہے کہ ایران اور سعودی عرب دونوں ہی سانحہ منا کے لئے اس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں لیکن سعودی عدالتوں کا رخ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہاں کی عدالتیں آزاد نہیں ہیں اور ان سے کوئي نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔