الوقت - ترکی نے شام کے بحران کے سلسلے میں مختلف فریقوں سے ٹکرانے والے مفادات کو چھوڑ کر، نیا رویہ اختیار کرنے کی درخواست کی ہے۔
پیر کو ترک وزیر اعظم بن علی يیلدریم نے انقرہ میں وزراء کی کونسل کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے کہا، "بغیر وقت برباد کئے شام کے بارے میں نیا باب کھولنا بہت ضروری ہے۔"
انہوں نے کہا کہ بدلے ہوئے تناظر میں ترکی، ایران، روس، امریکا، سعودی عرب اور خلیج فارس کے ساحلی کچھ ملک شامل ہوں۔
واضح رہے کہ ترکی، امریکا اور عرب ممالک کے آمروں کے ساتھ مل کر شام کی منتخب حکومت کے خلاف برسرپیکار دہشت گردوں کی حمایت کر رہا تھا لیکن ابھی حال ہی میں مغرب کے ساتھ اختلافات کے بعد ترکی کا رجحان روس کی طرف بڑھا ہے جو دمشق حکومت کی حمایت کرتا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ابھی حال ہی میں اپنے روسی ہم منصب ولادیمير پوتین سے روس کے سینٹ پيٹرزبرگ شہر میں ملاقات کی تھی جس میں باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیا تھا جو گزشتہ سال شام میں روسی طیارے کے ترکی کی جانب سے گرائے جانے کے بعد خراب ہو گئے تھے۔
انقرہ نے 15 جولائی کو ترکی میں ہوئی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایران کے ساتھ بھی تعلقات بہتر کئے ہیں۔ ایران نے سب سے پہلے ترکی کی فوجی بغاوت کی مذمت کی تھی۔ ایران کا بھی موقف ہے کہ بشار اسد شام کے قانونی صدر ہیں۔
واضح رہے گزشتہ ہفتے ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اوغلو نے اچانک تہران کا دورہ کیا تھا تاکہ شام کے تنازعہ سمیت مختلف موضوعات پر ایران کے ساتھ گفتگو کریں۔