الوقت - ایران کی میزائیل توانائی اور تہران کی جانب سے میزائیل تجربوں کا موضوع جو دفاعی پہلوؤں کا حامل ہے، ان موضوعات میں ہے جس کو اسرائیلی میڈیا مسلسل کوریج دے رہی ہے اور اسرائیلی حکام بھی ہمیشہ سے اس موضوع پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ در ایں اثنا بگین – سادات تحقیقاتی مرکز میں ہونے والی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ایرانی میزائیل کی جانب سے اسرائیل کو دقیق نشانہ بنائے جانے کے موضوع نے اسرائیل کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
بگین – سادات مرکز کی رپورٹ میں آیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ہونے والے کسی بھی میزائیل حملے میں اسرائیل کے ہزاروں عام شہری موت کی آغوش میں چلے جائیں گے، بجلی گھر، پینے کا پانی بنانے والے کارخانوں، انٹرنیشنل ہوائی اڈوں اور خفیہ پناہ گاہوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔ نئی میزائیل خطروں کے موضوع پر اسٹرٹیجک تحقیق کے اس مرکز کی جانب سے ہونے والی تحقیقات کی بنیاد پر ہدف کو نشانہ بنانے کے لئے میزائیل کے دقیق اثرات ایٹمی میزائیل کی مانند ہیں تاہم اصل مسئلہ یہ ہے بہت سے ممالک جو اپنی فوجی توانائی کی جانب بڑھ رہے ہیں، اپنے میزائیلوں کے سٹیک نشانہ کے موضوع پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اس بات کے مد نظر کہ ان میزائیلوں کی تخریبی توانائی ایٹمی ہتھیاروں جیسی نہیں ہے تاہم جس علاقے پر گرتے ہیں وہاں بہت زیادہ تباہی پھیلاتے ہیں۔ یقینی طور پر دنیا میں دقیق نشانہ لگانے والے میزائیل کی توسیع، ایٹمی میزائیل کی کی طرح ہوگی اور اس سے کوئی بڑا خطرہ سامنے نہیں آئے گا تاہم گزشتہ کی بہ نسبت، یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ خطرہ بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔
بگین – سادات تحقیقاتی مرکز کی رپورٹ میں آیا ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان حکومتوں میں نہیں ہے جو دقیق اور سٹیک میزائیلوں در آمد کرے اور اسی لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اگلے کچھ ہی برسوں میں اسرائیل، حزب اللہ اور ایران کے ساتھیوں کے چکی میں پس جائے گا۔ کیونکہ ان دونوں نے میزائیل کی غیر معمولی ٹکنالوجی حاصل کر لی ہے۔ یہ بعید نہیں ہے کہ حماس بھی یہ ٹکنالوجی حاصل کرلے۔ ایران ان ٹکنالوجیوں کو جو اس تک پہنچی ہے، متوسط فاصلے کے سٹیک میزائیل بنا سکتا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ یہ توانائی علاقے کی دوسری طاقتیں بھی حاصل کرلیں۔
اسرائیل کے بنیادی ڈھانچوں کو میزائیل سے ہونے والے نقصانات کے بار ے میں یہ تحقیقاتی مرکز کہتا ہے کہ ان میزائیل کے اسرائیل پہنچنے کی صورت میں اس کے اہم بنیادی ڈھانچے بری طرح تباہ ہو جائیں گے، وہاں پر زندگی کے اثرات پوری طرح ختم ہو جائیں گے تاہم یہ بات مکمل واضح ہے کہ اسرائیل میں بجلی کی کٹوتی کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، کیا افراتفری مچے گی، کتنا زیادہ اقتصادی نقصان ہوگا۔ اس بات پر تاکید کرنا چاہئے کہ کسی بھی جنگ کی صورت میں اسرائیل، دوسرے ممالک کے برخلاف اپنے پڑوسی ممالک کی امداد پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔
بگین – سادات تحقیقاتی مرکز نے اپنی رپورٹ میں تاکید کی تھی کہ مستقبل کی کوئی بھی جنگ اسرائیل کو اقتصادی لحاظ سے بہت کمزور کر دے گی اور اسرائیل کو اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان میزائیل حملوں سے بہت سے لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیل کی فوج، جنگ کو بہت جلد ہی ختم کرنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ یعنی جنگ چھ دن سے زیادہ طولانی نہ ہونے پائے۔ اس بنیاد پر اسرائیل کو بھی ان میزائیلوں کا سہارا لینا پڑے گا تاکہ ایران اور حزب اللہ کی جانب سے فائر کئے جانے والے میزائیلوں کا مقابلہ کر سکے۔