الوقت - روئٹرز کی اس رپورٹ کے بعد کہ سعودی عرب اپنی ایران مخالف پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے اور تہران کے خلاف مشرق وسطی سے باہر کے ممالک کو متحد کرنے کی کوشش میں ہے، ایران کے وزیر خارجہ نے ایران سے مقابلے میں سعودی عرب کی ناراضگی کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی سطح پر جے سی پی او سے جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس سے سعودی عرب بری طرح بوکھلایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، تہران کی اسٹرٹیجک توانائیوں کی آزادی اور پابندی کے سخت دور کے گزرنے سے بہت ناراض ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے ایران سے مقابلہ کرنے کے لئے سعودی عرب کی خطرناک اسٹرٹیجی کے بارے میں خبردار کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آل سعود نے کبھی تصور بھی نہیں کیا کہ ایران ایک دن سخت حالات سے باہر نکل آئے گا۔ اسی لئے اس نے تمام توانائیاں خرچ کر دیں اور اس کا ہدف یہ ہے کہ حالات کو ماضی کی جانب پلٹا دے کیونکہ سعودی عرب نے جے سی پی او اے کو اسٹراٹیجی شکل میں دیکھا اور اس کا جبران کرنے اور اس کا جواب دینے کی کوشش میں ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ کی جانب سے سعودی عرب کے بارے میں انکشاف سے پتا چلتا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ سعودی عرب کے خطروں، اس کے اہداف اور اس کی ماہیت سے آگاہ ہے اور ایران کی جانب سے اس بابت خبردار کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ ایران اس موضوع کے حوالے سے بہت زیادہ سنجیدہ ہے۔ در حقیقت گزشتہ ایک سال سے حالیہ چھ مہینے کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب ایران سے مقابلے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا ہے اور اس کے لئے تمام سیاسی، فوجی اور خفیہ ذرائع کا استعمال کیا ہے۔
انہیں سب باتوں کے مد نظر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یمن پر وسیع حملہ شروع کردیا جس کا اہم ہدف مذاکرات کے عمل سے دنیا کی توجہ ہٹانا اور مذاکرات کے عمل میں خلل پیدا کرنا ہے تاہم یہ عمل گزشتہ سال آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والی مفاہمت سے مکمل ہو گیا اور سعودی اس مفاہمت میں رکاوٹ پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ تب سے لے کر اب تک وہ اس مفاہمت سے ایران کو فائدہ اٹھانے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ در حقیقت سعودی عرب کے لئے سب سے اہم ایران کی اسٹراٹیجک توانائیوں کے آزاد ہونے کا موضوع ہے جس نے عرب دنیا میں ایران کے سیاسی اثر و رسوخ کا پرچم لہرا دیا ہے۔
دوسرے الفاظ میں عالمی سطح پر ایران کی سیاسی اور اقتصادی آزادی کی وجہ سے ایران نے اپنی علاقائی اسٹراٹیجی پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور اس لحاظ سے سعودی عرب نے ان حالات کو اپنے لئے تشویش کا سبب تصور کیا۔ خاص طور پر شام میں اس کی سرمایہ کاری، علاقائی سطح پر مزاحمت کی زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوئی اور ایران کے اثر و رسوخ کو نہیں روک سکی ہے۔ اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ حالیہ دنوں میں میدان جنگ کی صورتحال سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہوگئی ہے اور حالات ان کے اہداف سے کافی دور ہو گئے ہیں۔ اسی طرح سیاسی لحاظ سے بھی شامی عوام کے درمیان مذاکرات کی کوششوں میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے حالات جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موجود بحرانی حالات میں ایران سے سعودی عرب کے ٹکراو کا مسئلہ پوری طرح واضح ہو گیا ہے، اس عمل کو متاثر کرنے کے لئے سعودی عرب کے منفی اقدامات کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے شام کی حالیہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی ہر طرح کی کاروائی جو موجودہ وقت میں سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہے، اس مقابلے کے میدان میں سعودی عرب پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران، روس اور شام نیز مزاحمت کی حالیہ کوششیں اور ترکی کے موقف کی حالیہ تبدیلیوں سے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہم بشار اسد کے بر سر اقتدار رہنے کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھیں گے اور اس طرح سے ایران کے مقابلے میں سعودی عرب کے ٹکراو کا مسئلہ نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا اور اب وقت ہی بتائے گا کہ سعودی عرب اس عمل کے مقابلے میں کیا اسٹراٹیجی اختیار کرتا ہے۔