الوقت - بوکو حرام، شمالی نائجیریا میں ایک باغی اور اسلامی جہادی گروہ ہے جو ملک میں ماڈرن اسکولوں پر پابندی عائد کئےجانے اور ملک کی 36 ریاستوں میں شریعت اسلامی کے نفاذ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ نائجر، چاڈ اور شمالی کیمرون میں سرگرم یہ دہشت گرد گروہ 2002 میں تشکیل پایا اور اس کے زیادہ تر روابط القاعدہ نیٹ ورک سے ہیں تاہم مارچ 2015 میں اس نے داعش کے خود ساختہ خلیفہ ابو بکر البغدادی کی بیعت کر لی اور اپنا نام تبدیل کرکے مغربی افریقہ میں اسلامی حکومت نام رکھ لیا۔
شمالی نائجیریا میں 2000 سے قوانین شریعت اسلامی نافذ ہے لیکن طالبان نائجیریا اور بوکو حرام گروہ جیسے خود ساختہ گروہ پورے ملک میں شریعت اسلامی کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس بات کے مد نظر کے بوکو حرام اپنی تشکیل کا اصل ہدف ملک میں شریعت اسلامی کا نفاذ قرار دیتا ہے اور اسی موضوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ملک میں متعدد دہشت گردانہ حملے کئے ہیں۔ اس بنیاد پر مسلمانوں کے بعض گروہوں کی بہ نسبت بوکو حرام کے عمل سے حکومت راضی نہیں ہے۔ اس بات کے پیش نظر کہ نائجیریا میں مذہبی اور دینی جھڑپیں اور ٹکراو جاری ہے، یہ مسئلہ سبب بنا کہ بہت سے مسلمان جوان اس گروہ میں شامل ہونے پر مجبور ہوئے۔ چونکہ بوکو حرام گروہ خود کو مدافع اسلام اور عیسائیوں کے خلاف مسلمانوں کا حامی قرار دیتا ہے، اسی لئے بہت سے سادہ لوح مسلمان بہت تیزی سے اس گروہ میں شامل ہوگئے اور انہوں نے اس کی رکنیت حاصل کر لی۔
بوکو حرام نے حکومت کے لئے کام کرنے کو جسے ہو کافر قرار دیتا ہے، پابندی عائد کر دی ہے اور بوکو حرام کے ارکان کے مطابق، جو بھی اس کے سخت عقائد کی پیروی نہیں کرے گا وہ کافر ہے چاہے ہو عیسائی ہو یا مسلمان۔ اسی لئے ان مسلمانوں کے بارے میں اس گروہ کا نظریہ جو اس گروہ سے مزاحمت کرتے ہیں، مکمل خاتمے کا ہے۔ بوکو حرام اپنے مخالفین کو تشدد کے ذریعے ختم کرنے میں یقین رکھتا ہے۔ اس بات کے پیش نظر کہ نائجیریا کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں زیادہ تر مسلمان ہیں، اسی لئے بوکو حرام کی سرگرمیاں زیادہ تر انہیں علاقوں میں ہے اور یہ گروہ زیادہ تر پر تشدد کاروائیاں انہیں علاقوں میں انجام دیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ یہ گروہ جس طرح چرچ اور کلیسا کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتا ہے اسی طرح ان مساجد کو بھی نشانہ بناتا ہے جس امام جماعت اس گروہ کے خلاف تقاریر کرتے ہیں۔ یہ گروہ اب تک کئی مساجد پر حملے کر چکا ہے اور ان کو تباہ کر چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ نائجیریا کے بہت سے مسلمان اس شدت پسند گروہ سے نفرت کرتے ہیں اور اس کے مخالف ہیں۔
در ایں اثنا بوکو حرام کے بارے میں اس ملک کے شیعہ مسلمانوں خاص طور پر تحریک اسلامی کے سربراہ شیخ ابراہیم یعقوب زکزکی کا خیال ہے کہ بوکو حرام کے نام سے دہشت گردانہ حملے مغرب کی سازش اور منصوبوں کا نتیجہ ہے جن کا مقصد ملک میں اسلامی تحریک کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنا اور عوام میں اسلام کیا جانب بڑھتے رجحان کو ختم کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دشمنوں کا اصل مقصد نائجیریا کی اسلامی تحریک کی جو ایک شیعہ گروہ ہے، سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نائجیریا میں بیدار اسلامی کی لہر سے عالمی طاقتیں خوفزدہ ہیں اور جس چیز نے ان افراد کو زیادہ خوفزدہ کر دیا ہے وہ پورے ملک کا مسلمان ہونا یا خاص طور پر شیعہ ہو جانا ہے۔
بہرحال جو باتیں بیان کی کئیں ان سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ داعش اور القاعدہ جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں کی طرح بوکو حرام بھی اپنے جرائم کے ذریعے صرف اسلام کو ہی نشانہ بنا رہا ہے، اس گروہ کا ملک میں شریعت اسلامی کے نفاذ کا کوئی ہدف نہیں ہے اور نائجیریا کے مقدس مقامات اور علماء دین پر ہونے والے حملے اس بات کی تائید کرتے ہیں۔