الوقت - ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے انقرہ میں اپنے ہم منصب سے ملاقات اور گفتگو کی۔
الوقت کی رپورٹ کے مطابق، محمد جواد ظریف نے ترک وزیر خارجہ کے علاوہ اس ملک کے صدر رجب طیب اردوغان سے بھی ملاقات کی اور گفتگو کے دوران دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات اور علاقائی بین الاقوامی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ ترکی میں 15 جولائی کو ناکام فوجی بغاوت کے بعد کسی ایرانی اعلی عہدیدار کا ترکی کا پہلا سفر ہے۔ ایران نے بغاوت کی شروعات میں ہی ناکام فوجی بغاوت کی مذمت کی تھی اور اردوغان حکومت کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس مسئلے کے مد نظر حالیہ فوجی بغاوت کے بعد ایران اور ترکی کے سیاسی تعلقات میں نئے باب کے آغاز کی باتیں شروع ہوگئی۔ ترکی کے بہت سے حکام نے فوج بغاوت کے بعد ایران کے موقف کو سراہا تھا اور تہران میں تعینات ترکی کے سفیر نے ایک پریس کانفرنس میں ایران کے موقف کی تعریف کی تھی۔
موجود وقت میں جواد ظریف کے ترکی دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی توسیع کے راستے میں اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ تعلقات گرچہ گزشتہ 15 برسوں کے دوران کبھی بھی کشیدہ نہيں رہے لیکن شام کے بحران کی وجہ سے مغربی ایشیا کے دو بڑے ممالک کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے۔ در ایں اثنا حالیہ فوجی بغاوت کے دوران ایران کے واضح اور روشن مواقف نے انقرہ کی خارجہ پالیسی معین کرنے والے کی توجہ مغربی شرکاء کی بہ نسبت اپنے مشرقی ہمسایہ ایران کی جانب مبذول کر دی اور جواد ظریف کا ترکی دورہ بھی اسی نئی تبدیلی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دورے کے دوران ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اغلو نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں ترکی کا دورہ کرنے والے اپنے بھائی محمد جواد ظریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے بغاوت کے شروعاتی لمحے میں جب فوجی بغاوت کی ماہیت اور تصویر واضح نہیں تھی، کئی بار ٹیلیفون کرکے ترک حکومت اور ملت ترکی سے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ ایران کا یہ رد عمل ایسی حالت میں تھا کہ مغربی حکام نے بغاوت کے حوالے سے کوکئی موقف اختیار نہیں کیا، یہاں تک کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے یورو نیوز سے گفتگو میں مغرب کے دوہرے مواقف کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
تہران اور انقرہ کے دو طرفہ تعلقات میں توسیع کے علاوہ جس چیز نے جواد ظریف کے سفر کو اہمیت کا حامل قرار دیا ہے اس سفرکا اہم علاقائی مسائل سے مربوط ہونا ہے۔ جواد ظریف کا یہ دورہ سینٹ پیٹرزبرگ میں اردوغان اور پوتین کی ملاقات کے ٹھیک دو دن بعد ہوا۔ پوتین اور اردوغان کی ملاقات بھی سات مہینے کے سیاسی بائیکاٹ کے بعد ہوئی ہے۔
ان ملاقاتوں کو ایک اتفاق نہیں کہا جا سکتا اور یہ انقرہ کی علاقائی سیاست کے لئے ایک نئے باب کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ علاقائی تبدیلیوں خاص طور پر شام کے بحران کے حوالے سے انقرہ کو جہاں ایک طرف ماسکو کے ساتھ قرار دے دیا جہاں وہ ایران کے ساتھ تعاون میں دلچسپی کا مظاہرے بھی کر رہا ہے۔ گرچہ ترکی کی حکومت تاکید کرتی ہے کہ وہ شام کے بحران کے بارے میں ان کے ملک کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے لیکن پوتین اور اردوغان کی ملاقات کے بعد شام کے بحران کے بارے میں ترکی- روس کے دوجانبہ کمیشن کی تشکیل اس بات کی تائید ہے اس ملک کی خارجہ پالیسی میں جلد ہی کوئی تبدیلی ہونے والی ہے۔ اس دو طرفہ کمیشن کی تشکیل کے ساتھ ہی ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے انقرہ کا دورہ کرکے یہ احتمال کو مضبوط کر دیا ہے شام کے بحران کے بارے میں تہران- ماسکو- انقرہ کے سہ فریقی اتحاد کی تشکیل کا اعلان بہت جلد ہی ہونے والا ہے۔ یہ سہ فریقی اتحاد بحران شام کے سیاسی حل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے جو پوری دنیا کے مفاد میں ہوگا۔