الوقت - غیر قانونی صیہونی حکومت اور اس کی بچہ سعودی حکومت کی تشکیل ان اقدامات میں سے ہے جن کو وائٹ ہاوس اور اس کے اتحادیوں نے اپنی عظیم سیاست کو آگے بڑھانے کے لئے انجام دیئے ہیں۔ ان دنوں علاقے کی تبدیلیاں، ایسی متضاد پالیسیاں ہیں جن کا ہم امریکا کی سربراہی میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔
بحرین میں اس ملک کے شیعہ سینئر رہنما شیخ عیسی قاسم کی شہریت کے سلب ہونے سے اس ملک کی صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی اور عوام کے مظاہرے اور اعتراضات اپنے اوج پر پہنچ گئے۔ ملک کی آبادی کے تناسب کو بدلنے اور مخالفین کی گرفتاری اور ان کو متعدد قسم کی اذیتیں دینے کے لئے آل خلیفہ حکومت کی کوششیں ایسی حالت میں ہے کہ امریکی حکام نے بھی اس ملک کی خراب صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے۔ عراق میں بھی یہ ملک تکفیری دہشت گرد گروہ سے مقابلے میں اپنے سخت ترین دور کا سامنا کر رہا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے فلوجہ اور موصل سٹی جیسے بڑے شہروں کی آزادی میں الحشد الشعبی کی شرکت نہ کرنے کی شرط پر اس ملک کی فوج کی ہوائی حمایت کا بھروسہ دلایا ہے اور اس طرح سے دہشت گردی کے مقابلے کے دعوی کے ساتھ وہ اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ترکی میں بھی شام کے حوالے سے انقرہ کی سیاست میں بھی کچھ تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے اور ترکی علاقے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایران اور روس کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے۔ در ایں اثنا ترکی میں فوجی بغاوت ہو گئی اور اس کا الزام امریکا پر لگ گیا تاہم وائٹ ہاوس نے بغاوت میں ہر طرح کی مداخلت سے انکارکیا، اس کے باوجود وہ جانتا تھا کہ مزاحمت کے محور کے حوالے سے ترکی کی پالیسی میں اساسی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود کہ شام میں جنگ کی آگ امریکا کی کھلی حمایت سے بھڑک اٹھی ہے لیکن شام کے حوالے سے اس ملک کی بنیادی پالیسی میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے اور واشنگٹن نئے اتحاد کی تشکیل کے لئے ماسکو کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لبنان میں امریکا کی نئی سفیر الیزابتھ ریچرڈ نے اس ملک میں تکفیری دہشت گرد گروہ اور داعش کی بیخ کنی میں حزب اللہ لبنان کے کردار کو عمدا نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تعیناتی کو اسلامی مزاحمت کو تباہ کرنا قرار دیا اور امریکا کی حقیقی نیت کو مخفی کرتے اپنے بیانات کو بہت ہی خوبصورتی سے سفارتی انداز سے پیش کیا۔ یہی متضاد چیزیں پاکستان، یمن اور افغانستان میں بخوبی مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔
ان تبدیلیوں اور حقائق کے مدنظر امریکا نے علاقے میں اپنی پالیسی کو تین حصوں میں اسٹراٹیجک، ٹیکٹک اور میڈیا تقسیم کر رکھا ہے۔ اسٹراٹیجک پالیسی کا ہدف، امریکا کی بنیادی پالیسیوں کو تشکیل دینا ہے اور اس میں بہت کم ہی تبدیلی کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تاہم یہ کہ بین الاقوامی سطح پر بہت بڑی تبدیلی رونما ہو۔ دوسرا حصہ ٹیکٹک کے اقدامات ہیں۔ اس کا اصل ہدف امریکا کے طویل مدت پالیسی کو تشکیل دینا ہے۔ امریکا کی تیسری پالیسی وہ بیانات ہیں جو بیانوں، ملاقاتوں اور میڈیا میں بیان کئے جاتے ہیں جو عام طور پر امریکا کی پہلی اور دوسری والی پالیسی کے مطابق نہيں ہوتے۔
بہرحال غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ عالم اسلام اور مغربی ایشیا میں جو بھی مسائل ہیں ان کی اصل جڑ امریکا کی استعماری پالیسیاں ہیں اور عالم اسلام کو سازشوں سے محفوظ رکھنے کے لئے تمام لوگوں کو ان سے ہوشیار رہنا ہوگا۔