الوقت - نائجیریا کے شیعہ رہنما شیخ ابراھیم زکزکی کے بیٹے محمد زکزکی نے ایک خط میں لکھا کہ میں دنیا کے ہر انسان سے جو عدالت اور انسانی کرامت پر یقین رکھتے ہیں، درخواست کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ کوشش کرنے کے لئے میرا ساتھ دیں۔
محمد زکزکی نے اپنے کھلے خط میں اپنے والد ماجد پر ہونے والے مظالم اور ان کی خراب صورتحال کا حوالہ دیا۔ محمد زکزکی کے خط میں نائجیریا کے مسلمانوں کے خلاف فوج کے مظالم اور تشدد خاص طور پر اس ملک کے شیعہ مذہبی رہنما شیخ زکزکی پر ہونے والے مظالم کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ اس خط میں آیا ہے کہ ہماری بچپن کی کچھ یادیں میری پرائیوٹ یادیں ہیں، میں اسے سب سے بیان نہیں کر سکتا، لیکن موجود صورتحال کے مدنظر، احساس کرتا ہوں کہ اس کے ایک حصے کو سب کے ساتھ شیئر کروں، خاص طور سے ااس وقت کے میں اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا ہوں اور اب مجھے زندگی کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ میں محمد ابراہیم ہوں البتہ میرے دوست مجھے ابراہیم ہی کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک دن میں نے اپنے گھر میں ایک چوہے کو مارا، چوہے کی موت میرے لئے کبھی فراموش نہ ہونے والا تجربہ ثابت ہوا۔ میں چوہے سے بڑی کوئی بھی چيز نہیں مار سکتا، جبکہ کچھ مسلح افراد نے میرے تمام بھائیوں کو گولیوں سے بھون دیا۔ اسی طرح ان کے ساتھ، خواتین، مردوں اور بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان ہلاک شدگان میں ڈاکٹر، نرس، انجینئر، نامہ نگار اور سرکاری ملازم خواتین اور مرد سب ہی شامل تھے۔ طلبہ اور طالبات جن کے دل میں اپنے اہداف کے حصول کی آرزویں موجزن تھیں، دوست و یار و مددگار سبھی کو اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ فوج نے موت کی آغوش میں سلا دیا۔ اس المناک حادثے کے بعد کادونا کی مقامی حکومت نے ایک کمیشن کی تشکیل کی اطلاع دی جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ فوج کے ہاتھوں ہوئے عام لوگوں کے قتل عام کی تحقیقات کرے۔ اس المناک واقعے میں ہزاروں بے گناہ افراد کو نظرانداز کر دیا گیا، 340 سے زائد افراد کو اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا، سیکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کے املاک و گھروں کو تاراج اور نابود کر دیا گیا۔ گرچہ اس سرکاری کمیشن میں تحریک کے کسی بھی مسلمان کو شامل نہیں کیا گیا ہے لیکن خود ہی تحقیقات کے نتائج کا جائزہ لوں گا۔
سرکاری خدمات کے ادارے ڈی ایس ایس(DSS) نے دعوی کیا ہے کہ میرے والد محترم سخت سیکورٹی میں نظر بند ہیں کیونکہ ان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ان کے وکیل کے بقول یہ سرکاری خدمات کے ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو نقصان ہونے سے روک سکیں۔ ان سب سے بدتر چيز یہ ہے کہ دعوی یہ کیا جا رہا ہے کہ پچاس لاکھ نایرا (نائجیریا کا پیسہ) صرف ان کی سیکورٹی پر خرچ ہو رہا ہے۔ یہ ناقبل برداشت ہے کہ میں اپنے تین بھائیوں سمیت تمام بے گناہ افراد کے قتل عام کا تماشہ دیکھوں۔ گرچہ میرے والد اور میری ماں جیل میں تو نہیں ہیں لیکن نہ تو ان ہی راحت ہے اور نہ سیکورٹی ہے۔ نائجیریا کی فوج نے گزشتہ آٹھ مہینے کے دوران میرے بھائیوں، میرے چچا اور میرے بہت سے رشتہ داروں سمیت ہزاروں بے گناہ افراد کو قتل کر دیا۔ میری والدہ محترمہ پر سات راونڈ فائرنگ ہوئی۔ میرے والد کی ایک آنکھ خراب ہونے کے علاوہ ان کا ہاتھ اور پیر فالج زدہ ہو گیا۔ اس حالت میں بھی ان کو ڈاکٹروں اور قانونی افراد تک رسائی ممکن نہیں بنائی جا رہی ہے جبکہ ڈی ڈی سی ان کی حفاظت کا دعوی کر رہی ہے۔ میں جب بھی اپنے والد کی ڈاکٹر سے ملاقات کرانے کی درخواست کرتا ہوں تو مختلف بہانوں سے ڈی ڈی سی کی جانب سے مسترد کر دیا جاتا ہے۔