الوقت - 12 جولائی، اس جنگ کی 12ویں برسی تھی جو صیہونی حکومت نے لبنان اور اسلامی مزاحمت کے خلاف شروع کی تھی۔ یہ جنگ 33 دنوں تک جاری رہی۔ یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے جوانوں نے آبی ریڈ لائن عبور کرکے ایک کاروائی میں دو اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا تھا تاکہ بعد کے مراحل میں ان کے بدلے صیہونی حکومت کی جیلوں میں بند سمیر قنطار سمیت اپنے ساتھیوں کو آزاد کرا سکیں۔ در ایں اثنا لبنان کے خلاف جنگ میں اسرائیل نے ایک دوسرا ہی ہدف مد نظر رکھا۔ صیہونیوں نے لبنان کے نقشے سے حزب اللہ لبنان کو مٹانے کے مقصد سے وسیع پیمانے پر حملے شروع کر دیئے۔ صیہونیوں نے ان حملوں میں لبنان کے بنیادی ڈھانچوں، اسپتالوں، اسکولوں اور حزب اللہ کے ٹی وی چینل المنار کی عمارت، حزب اللہ کے دفاتر اور مراکز کو نشانہ بنایا تاہم لبنان پر ہوائی حملے میں ناکامی کے بعد صیہونی حکومت نے بھاری ٹینکوں اور پیادہ فوجیوں کے ساتھ لبنان پر زمینی حملہ کر دیا۔ حزب اللہ لبنان کے جیالے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے لبنان کی سرحد کی جانب بڑھتے اسرائیل کے مرکاوہ ٹینکوں سوکھے بھوسے کی طرح ہوا میں اڑا دیا۔ اخرکار 33 دن بعد سیکورٹی کونسل میں قرارداد نمبر 1701 منظور ہوئی اور اس طرح صیہونی حکومت کا 14 اگست کو لبنان پر حملہ بند ہوگیا۔
اس ماحول میں صیہونی جارحیت پر عرب حکومتوں اور قوموں کا جو رد عمل تھا وہ پوری طرح مختلف تھا۔ عرب قوموں نے حزب اللہ اور صیہونی حکومت کی جنگ میں حزب اللہ کی حمایت اور صیہونی حکومت کی مذمت میں متعدد مظاہرے کئے لیکن عرب حکومت کے مواقف پوری طرح الگ تھے۔ سعودی عرب ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے حزب اللہ کی جانب سے دو اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنائے جانے کے قدم کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں اس کاروائی کو غیر منظم اور بغیر سوچا سمجھا قدم قرار دیا گیا تھا جس کو انجام دینے کے لئے کسی عرب ملک سے ہماہنگی نہیں ہوئی تھی۔
حزب اللہ کے بارے میں سعودی عرب کا یہ سلوک بدستور جاری ہے اور وہ اب بھی اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ حزب اس جنگ میں کامیاب رہا جس کو شروع کرنے والے اسرائیل اور امریکا تھے جن کا مشرق وسطی کے بارے میں نیا منصوبہ تھا۔ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈلیزا رائیس نے اس کو مثبت "ہرج مرج" کا نام دیا تھا۔ ایک ایسا منصوبہ میں سعودی عرب جیسے عرب ملکوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ عرب علاقے کے مزاحمت کے محور و مرکز کو ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ صیہونی حکومت کی سرحدیں پرامن ہو جائیں۔ نام نہاد بہار عربی کی تبدیلیوں میں امریکا اور اسرائیل کیا جانب سے اسی سیاست کو آگے بڑھایا گیا اس فرق کے ساتھ کہ اس نئی تبدیلیوں میں وہ عرب حکومتیں ہیں جو صیہونی حکومت کو تحریک مزاحمت خاص طور پر حزب اللہ کی جانب سے کھڑی کی گئی مشکلات سے محفوظ رکھے تھیں۔
بہرحال عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے صیہونی حکومت کے ساتھ حزب کی جنگ میں حزب اللہ کی مدد کرنے کے بجائے ایسے حالات کھڑے کر دیئے کہ حزب اللہ شام کے بحران میں الجھ گئی اور اس نے اپنی توانائیوں کا ایک حصہ اس میں گنوا دیا جس میں سامنے والا فریق صیہونی حکومت نہیں بلکہ داعش اور نصرہ فرنٹ ہے جو صیہونی حکومت کی نیابت میں حزب اللہ سے جنگ میں مصروف ہیں۔ اسی کے ساتھ سعودی عرب نے بحران شام سے فرقہ وارانہ اختلافات کو بھڑکانے کی بھرپور کوشش کی کہ جس کا فائدہ صرف اور صرف صیہونی حکومت کو ہونا تھا۔ اسی تناظر میں اس نے مارچ کے مہینے میں عرب ليگ پر دباؤ ڈال کر حزب اللہ کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرا دیا۔ اس کا فائدہ اسرائیل کو اس لحاظ سے ہوگا کہ اگلی کسی بھی ممکنہ جنگ میں اسرائیل یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہ سے جنگ کر رہا ہے۔