الوقت - امریکہ میں نسلی تصادم ایک بار پھر ایسے خلفشار میں تبدیل ہوچکا ہے کہ امریکی حکام کے پاس کہنے سننے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ وہ امن قائم کرنے کی بے روح اپیلوں کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ کر بھی نہیں سکتے کیوں کہ امتیازات کو ہوا دے کر ہی انہوں نے سیاسی مفادات کی روٹیاں سینکی ہیں۔ وہ چاہے موجودہ حکام اور سیاستداں ہوں یا ماضی کے۔ ان میں سے کون ہوگا جسے یہ علم نہ ہو کہ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں افریقی امریکی اور ہسپانوی شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے، انہیں نوع بہ نوع مسائل میں گرفتار کرنے والے کون ہیں، ان سے جواب کیوں طلب نہیں کیا جاتا اور وہ کون سا جذبہ ہے جو ان مسائل کا ذمہ دار ہے۔
حال میں جن تین سیاہ فاموں کا سر عام قتل ہوا ہے ان کی ویڈیوز دیکھئے تو واقعہ کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ آلٹن اسٹرلنگ غالبا اپنے گیراج میں کھڑا ہوا ہے۔ دو پولیس افسر اسے اپنی گرفت میں لے کر زمین پر گرا دیتے ہیں اور ان میں سے ایک، بندوق نکال کر اس کے سینے پر گولیاں برساتا ہے(یہ آخری منظر سے قبل ہی ویڈیو ختم ہو جاتا ہے) دوسرا سیاہ فام فلانڈ وکرسٹیل تھا جو، کار میں اپنی ساتھی کے ہمراہ ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ لائسنسن دکھائے، جب وہ لائسنس کیلئے اپنا بٹوہ نکال رہا ہوتا ہے تب اس کو گولی مار دی جاتی ہے۔ دونوں ہلاکتوں کی تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ پولیس کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا جس کے لئے بندوق چلائی جاتی لیکن چلائی گئی کیونکہ امریکی سیاہ فاموں کی عام شکایت کے مطابق، پولیس افسران جب بھی سیاہ فاموں کو دیکھتے ہیں، ان کا خون کھولنے لگتا ہے اور وہ معمولی سے معمولی بات پر گولی داغ دیتے ہیں، بعض اوقات کسی معمولی بہانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ خبروں کے مطابق، ان دو کے علاوہ ایک تیسری ہلاکت بھی ہوئی ہے جس کی تفصیل ہمیں دستیاب نہیں ہوسکی۔ تا ہم، ان ہلاکتوں کی وجہ سے سیاہ فام ناراض تھے، پانچ پولیس اہلکاروں کی موت کی وجہ سے سفید فام بھی ناراض ہیں۔ اس طرح دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں1967-68 جیسے حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں جب امریکہ نسلی فسادات کی زد پر تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اپنی تمام تر ترقی، سپر پاوری کے زعم اور انسانی حقوق سے نمائشی دلچسپی کے باوجود نسلی امتیازات سے باہر نہیں آسکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ امتیاز امریکی شہریوں میں رچ بس ہی نہیں گیا ہے، امریکی انتظامیہ اور اداروں میں بھی پوری طرح موجود ہے۔ 1968 میں قائم کئے گئے ایک کمیشن نے جو کیرنر کمیشن کے نام سے مشہور ہوا، اپنی رپورٹ میں صاف طور پر کہا تھا کہ نسلی تعصب کی وجہ سے امریکہ ایک ایسے ملک میں تبدیل ہو رہا ہے جس میں دو سماج ہیں،ایک سیاہ فاموں کا، دوسرا سفید فاموں کا،دونوں الگ الگ ہیں اور ان کے درمیاں مساوات نہیں ہے۔ کمیشن نے پولیس کے بارے میں رائے دی تھی کہ’’اس کی تعیناتی حل نہیں، بذات خود مسئلہ ہے۔‘‘ لیکن، ہندوستان کےفساد کمیشنوں کی طرح اس کمیشن کی رپورٹ بھی توجہ کو ترستی رہی اور اس میں بیان کردہ حقائق کی بنیاد پر تھوس قدم نہیں اٹھایا گیا جو امریکی معاشرہ کو ذمہ دار اور محتاط سماج میں تبدیل کرسکے اور ظالم افسران کو سزادی جاسکے۔
نسلی تعصب کو فساد اور قتل و خون تک پہنچانے میں امریکہ کا گن کلچر بھی ذمہ دار ہے لیکن امریکی سیاست دانوں کو دوسرے ملکوں کے ’مسائل‘ سے اتنی دلچسپی ہے کہ وہ اپنے گھر کا اندھیرا نہیں دیکھ پاتے۔ انہیں اپنی حالت پر ترس کھانا چاہئے۔