الوقت - کسی علاقہ میں پانی کی قلت ہو، اناج کی دکانیں بند ہو جائیں، سبزی فروشوں کے پاس تازہ سبزیاں نہ ہوں، بینکوں میں جمع شدہ رقم وقت کے ساتھ سب نکل چکی ہو، اسپتال دواؤں کو ترس رہے ہوں اور دوا فروشوں کے ہاں ضروری ادویات نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ ہا ہا کار مچ جائیگا۔ اس کا مشاہدہ ہمیں خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی سیاسی پارٹی ہڑتال کا اعلان کرتی ہے۔ آس پاس کی دکانوں پر دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ امڈ پڑتی ہے۔
اس پس منظر میں فلسطین کے متعدد علاقوں بالخصوص غزہ کے حالات کا تصور کیجئے جہاں عوام کی زمین جارحانہ طریقہ سے غصب کی جارہی ہے، ان کے لئے آنے والی امداد روکی جارہی ہے، معاشی پابندی لگا دی گئی ہے، اسپتالوں میں دوائیں نہیں ہیں، بچوں کے اسکول صیہونیوں کی وحشیانہ بمباری میں تباہ ہونے کے بعد از سر نو تعمیر نہیں ہو سکے ہیں، روزگار کے مواقع عنقا ہیں اور ایک ایک گھر میں اناج کی قلت ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 تک غزہ رہائش کے قابل نہیں رہ جائے گا۔ گزشتہ 7 برسوں میں اس علاقہ پر تین جنگیں مسلط کی گئیں جن میں سب سے زیادہ تباہ کن دو سال قبل کی وہ جنگ ہے جو ایک ماہ سے زیادہ جاری رہی اور جو رمضان المبارک میں اہل فلسطین کے صبر و ضبط کا امتحان لینے سے زیادہ انہیں پوری طرح برباد کرنے کے مقصد سے شروع کی گئی تھی۔ 8 سال سے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کا ایک ایک دن کس طرح فلسطینی استقامت کو آزما رہا ہے اس کا اندازہ بھی شاید ہم آپ نہیں کرسکتے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے نائب صدر حمدی شکری نے کہا تھا کہ ’’2014 کی جنگ کے 5 لاکھ متاثرین اب بھی بے گھر ہیں۔ اہل غزہ کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہو چکا ہے اور اب صرف اور صرف بیرونی امداد پر انحصار ہے۔ غزہ کی مجموعی قومی آمدنی صرف 15 فیصد رہ گئی ہے، بے روزگاری 44 فیصد ہے جبکہ 72 فیصد خاندان غذائی اجناس کی قلت کا شکار ہیں۔ ‘‘ کوئی احساس بھی کرسکتا ہے کہ اہل غزہ پر کیا گزرتی ہوگی؟
مغربی کنارہ کا حال بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ دو ہفتہ پہلے حقوق انسانی کی ایک تنظیم ’’بریکنگ دی سائلنس‘‘ نے انکشاف کیا تھا کہ بعض ربیوں نے اپنے معتقدین کو مغربی کنارہ کے کنوؤں اور دیگر آبی ذخائر میں زہر گھولنے کی تلقین کی ہے۔ فلسطینی مبصرین کے مطابق صہیونی حکومت پانی کو ’’ویپن آف سلوگریجویٹیڈ جینو سائڈ‘‘ کے طور پر استعمال کر رہی ہے تاکہ پانی سے محروم کرکے پوری کی پوری آبادی کا صفایا کردیا جائے۔ فلسطینی آبی وسائل پر صہیونیوں کا قبضہ ہے اور پانی سے متعلق کسی بھی پروجکٹ کیلئے صہیونیوں کی منظوری لینی پڑتی ہے جو کہ با آسانی تو ہرگز نہیں ملتی بلکہ صہیونی کسی بھی منظور شدہ پروجیکٹ کو ویٹو کرسکتا ہے۔ صہیونی حکومت کمال ہوشیاری سے فلسطینی آبی وسائل کو ہتھیانے کے در پے رہتی ہے۔ رفتہ رفتہ اس نے حدود فلسطین کا پانی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔
اگر معمولی غذائی و آبی قلت نیز سماجی، معاشی اور سیاسی حالات ہمیں بے طرح پریشان کر دیتے ہوں تو سوچئے اہل فلسطین جو نا گفتہ بہ مسائل کا شکار ہوں، ان کی حالت زار کو محسوس کرنا اور ان کے ساتھ یک جہتی اور ہمدردی کا اظہار کرنا کتنا ضروری ہے۔ اسی لئے یوم قدس منایا جاتا ہے تاکہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی بھی ہو اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے دنیا بھر کے مسلمان عزم بھی کریں اور دعا بھی۔ اس دن کے منائے جانے سے صہیونیوں کی پشت پناہ عالمی برادری کو یہ پیغام ملتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان بیدار ہیں اور قبلۂ اول کی بازیابی ان کی اوّلین خواہش نیز فلسطینیوں پر ظلم و جبر کا خاتمہ ان کا اوّلین مطالبہ ہے۔