الوقت - امریکا کی ایک ویب سایٹ کا کہنا ہے کہ علاقے میں سعودی عرب کے منصوبے اور ایران سے مقابلے کے لئے عرب اتحاد کے نقصان کا سبب، مصر اور قطر کے درمیان بے اعتمادی اور کمزور روابط کا جاری رہنا ہے۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق، علاقے کے دو سنی ملکوں قطر اور مصر کے درمیان کشیدگی اور لفظی جنگ بدستور جاری ہے کیونکہ مصری عدالت نے ملک کے مستعفی صدر محمد مرسی کے خلاف عمر قید کا حکم دیا ہے اور اسی طرح قطر کے لیے جاسوسی کرنے کے لئے الزام میں الجزیرہ ٹی وی چینل کے دو نامہ نگآروں سمیت چھ افراد کو سزائے موت سنائی تھی۔ یہ کشیدگي جو اس وقت شروع ہوتی تھی اب بھی بدستور جاری ہے۔ مصر کے ایک جج نے دعوی کیا تھا کہ محمد مرسی نے اپنی صدارت کے زمانے میں قومی سیکورٹی سے متعلق دستاویزات قطر کو دیئے تھے۔ المانیتر ویب سایٹ نے قطر اور مصر کے درمیان ثالثی ادا کرنے کی سعودی عرب کی ناکام کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ قطر، اخوان المسلمین کا حامی ہے اور ترکی بھی اسی کے ساتھ ہے جبکہ مصر دوسرے گروہ کا حامی ہے اور امارات اس کا حامی ہے۔ سایٹ آگے لکھتی ہے کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ سنی علاقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے یہ چار ملک کو متحد کرے اور ایران کے خلاف ایک مضبوط سنی اتحاد تشکیل دے ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی بنا پر سعودی عرب کے حکام علاقے میں ایک نیا فرقہ وارانہ نظام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سعودی حکام نے نے اس کا مشاہدہ کرنے کے لئے کہ اس کے سنی اتحادیوں نے مشکلات پر غلبہ پا لیا ہے اور وہ مشرق وسطی میں سعودی عرب کے منصوبوں کی حمایت کرتے ہیں، بہت بڑا بجٹ مخصوص کیا ہے۔
....المانیتر مزید لکھتی ہے کہ سعودی عرب کے فرمانراو کی نظر میں ان کا ملک ایران اور ان سنی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کی توانائی نہیں رکھتا جو عقیدتی لحاظ سے اس ملک کے جواز کے لیے مشکلات کا سبب ہیں۔ اسی وجہ سے سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلمان بن عبد العزیز نے اخوان المسلمیں کے بارے میں نرم لہجہ اختیا رکیا ہے اور اس گروہ کے مختلف افراد کو سعودی عرب کا دورہ کرنے کی اجازت دے کر قطر کے ساتھ صلح کرنے کی کوششیں کی ہیں۔