الوقت - بحرین کی آل خلیفہ حکومت نے کچھ دن پہلے تمام انسانی اور بین الاقوامی قوانین کے برخلاف اس ملک کے شیعہ مذہبی رہنما، مرجع تقلید اور بزرگ عالم دین شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کر دی۔
بحرین کے الوسط روزنامے کی رپورٹ کے مطابق حکومت کے خلاف مسلسل مظاہروں اور اعتراض کی وجہ سے شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کی گئی ہے۔ بحرین کی وزارت داخلہ نے بھی اعلان کیا کہ فرقہ وارانہ تبلیغات اور فتنہ فساد پھیلانے کی وجہ سے شیخ عیسی احمد قاسم کی شہریت منسوخ کر دی گئی ہے۔ بحرین کی وزارت داخلہ نے دعوی کیا کہ شیخ عسی قاسم نے منبر اور خطبوں کے ذریعے، غیر ملکیوں کے مفاد میں، تشدد اور فرقہ وارانہ اقدامات انجام دیئے۔
اس مقالے مین شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کئے جانے کے اقدامات کا قانونی لحاظ سے جائزہ لیا جائے گا۔
قانونی تجزیہ : شہریت ایک قانونی حق ہے۔ موجودہ وقت میں دنیا کے تمام ممالک میں یہ بات سب کو پتا ہے کہ شہریت کے قانون و ضوابط کیا ہیں۔ شہریت کے حقوق بین الاقوامی قوانین میں مذکور ہیں۔ یہ اس وقت سے قابل بحث موضوع ہے جب سے آج کے مفہوم کی آزاد حکومت تشکیل پائی۔ حکومتوں کے جاری رہنے سے قومیت کا رجحان پیدا ہوا، اس کے باوجود کچھ افراد کا یہ خیال ہے کہ شہریت، حکومت اور شخص کے درمیان رابطے کو ظاہر کرتی ہے اور یہ عام حقوق کے زمرے میں آتی ہے۔ تاریخی لحاظ سے اگر شہریت کا جایزہ لیا جائے تو کبھی کسی خاص شہر میں رہنے والا کوئی شخص اس شہر کا شہری شمار ہوتا ہے اور کبھی کبھی شہریت مذہب، دین اور رہائشگاہ سے وابستہ ہوتی ہے۔ ظالم حکومت کی تشکیل کے بعد، شہریت کا تعین کی بنیاد، بادشاہ کا حکم شمار ہونے لگا لیکن نشاۃ ثانیہ کے (Renaissance) قرون وسطیٰ میں یورپ خصوصاً ایطالیہ سے اٹھنے والی ایک ثقافتی تحریک تھی جو 14 ویں سے 17 ویں صدی تک جاری رہی، ظاہر ہونے سے مخلتف افکار و نظریات کی حکومتیں وجود میں آئيں اور ان حکومتوں میں شہریت کا معیار قومیت اور ملیت شمار ہونے لگا۔ اس بنا پر شہریت کی مختلف تعریفوں کے مد نظر اس کی مختلف خصوصیات کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ شہریت ایک سیاسی رابطہ ہے کیونکہ یہ انسان کا حکوت سے رابطہ پیدا کرتی ہے اور اس تعلقات اور رابطے کے سایے میں شہری کو سیاسی حمایت کا حق عطا کیا جاتا ہے۔ شہریت ایک بین الاقوامی رابطہ ہے کیونکہ بین الاقوامی نظام میں ایک ملک کے شہری کو اس ملک سے باہر اپنی حکومت کی حمایت حاصل رہتی ہے۔ شہریت ایک داخلی رابطہ ہے کیونکہ داخلی نظام میں سیاسی حقوق کی پیروی ووٹنگ کے حق کی طرح ہے۔ شہریت ایک قانونی رابطہ ہے کیونکہ یہ رابطہ قانونی آثار کو پیدا کرتا ہے۔
شہریت کے تین اصول :
ہر ایک کو کسی ملک کا شہری ہونا چاہئے۔
کسی بھی شخص کو ایک سے زیادہ شہریت نہیں رکھنی چاہے۔
شہریت، ایک غیر قابل تبدیل رابطہ نہیں ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق حکومتوں کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ کسی کی شہریت سلب نہ کرے۔ اس بنا پر شہریت سلب کرنا اسی وقت جرم شمار ہوتا ہے جب کسی کے پاس شہریت ہو وہ حاصل کی گئی ہو لیکن اگر پیدائیش کی وجہ سے شہریت حاصل ہوئی تو حکومت کے لئے اسے شہریت کے حق سے محروم کرنے کا کوئي حق نہيں ہے۔ بین الاقوامی قوانین میں بھی حکومتوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
شہریت کے کچھ اصول ہیں :
شہریت کی ضرورت اور شہریت کے نہ ہونے سے انکار
شہریت کے اتحاد کی ضروت، یعنی ایک شخص ایک شہریت
شہریت میں تبدیلی کے امکانات
شہریت سلب کرنا پر پابندی
انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی شق نمبر 15 میں واضح کیا گیا ہے کہ ہرایک کو شہریت رکھنے کا حق ہے اور وہ بلاوجہ خود کی شہریت کو ختم کر دے یا خود کو شہریت کے حق سے محروم کر دے۔ اس لحاظ سے بحرین کے بزرگ عالم دین شیخ عسی قاسم کو بھی شہریت رکھنے کا حق ہے اور زور زبردستی سزا کے طور پر ان کو اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس ملک کو جس میں عوام کو انتخابات کا حق حاصل نہ ہو اور ان کو اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل نہ ہو وہاں پر یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے وہ حکومت بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے گی۔ اس لحاظ سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر قاسم سلیمانی کا وہ بیان قابل توجہ کہ جب ایک قوم کو باضابطہ قبول نہیں کیا جاتا اور اس کو تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا تو یہ امید نہیں کرنی چاہئے کہ عوام برسوں بعد بھی اپنے پرامن اعتراضات جاریر رکھیں گے۔ بہرحال مذکورہ بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت سلب کرکے آل خلیفہ حکومت نے بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کیا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی ہے اور اب عوام کب تک پر امن مظاہرے کرتے رہیں گے۔