الوقت - تقسیم عراق کے سلسلے میں عوام اور سیاسی جماعتوں کی مخالفتعراقی کردستان علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی کے مسرور بارزانی نے جو اس وقت عراق کے کردستان علاقے کی سلامتی کونسل کے سربراہ ہیں، 16 جون کو رویٹرز نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے عراق کے تین حصوں پر تقسیم ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا: داعش کی شکست کے بعد ضروری ہے کہ قتل و غارت اور خون خرابے سے بچنے کے لئے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے، سنی، شیعہ اور کرد، فیڈرل نظام کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا، لہذا کنفیڈرلیزم نظام کا نفاذ ضروری معلوم ہوتا ہے تا کہ برابر کی تین حکومتیں قائم ہوسکیں۔
البتہ اس بات کی تاکید کی جاتی ہے کہ مسعود بارزانی پچھلے کچھ عرصوں سے آزاد کرد حکومت کی تشکیل پر تاکید کر رہے ہیں اور اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس کے لئے ریفرنڈم کروانا چاہتے ہیں اور موجودہ راوں سال میں وہ چاہتے ہیں کہ ریفرنڈم منعقد ہوجائے۔
مسرور بارزانی بھی جو اپنے باپ کی جگہ سنبھالنے کی تیاری میں مصروف ہیں مسعود بارزانی کی خواہش پر زور دیتے ہیں۔ البتہ اس بار تو وہ ایک قدم اور بھی آگے بڑھ کر بول رہے ہیں اور شیعوں اور اہل سنت کو بھی الگ حکومت بنانے کا حق دے رہے ہیں۔
شیعہ، سنی، اور کرد نمایندوں کا مسرور بارزانی کے خلاف رد عمل
اس وقت تک کسی شیعہ ، سنی یا کرد جماعت نے سوائے کرد ڈموکریٹیک نے مسرور بارزانی کی باتوں کی تائید نہیں کی ہے، البتہ بعض علاقوں کے مختلف افراد نے اس کے خلاف ردعمل ظاہر کیا ہے جیسے:
۱۔ اہل سنت
عراقی پارلمینٹ کے سنی رکن پارلیمنٹ اور پارلمینٹ کے خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین حسن شویرد کہتے ہیں: ’’عراق کی تقسیم ہجرت اور خون خرابے کا باعث بنے گی۔‘‘
موصل کی مقامی پارلمینٹ کے سنی رکن احمد الجبوری بارزانی کی مخالفت کرتے ہیں۔
عراق کے سیاسی عمل میں شامل سنی شخصیتیں اور ملک کے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حق میں سنی ہستیاں شیعوں اور حکومت سے راضی نہ ہونے کے باوجود حکومت مرکزی سے سنی علاقوں کے رابطے اور فیڈرل حکومت کے قیام کی خواہاں ہیں، جیسا کہ گزشتہ دنوں صوبہ نینوا کے ایک سیاسی رکن عبدالرحمن سلمان نے بھی یہی موقف اختیار کیا، لہذا کہا جاسکتا ہے مسرور بارزانی آزاد سنی حکومت پر تاکید کررہے ہیں لیکن خود اہل سنت اس کے حامی نہیں ہیں۔
۲۔ شیعوں
عراقی پارلیمنٹ کی سیکورٹی اور دفاعی کمیٹی کے رکن اور بدر دھڑے کے سربراہ قائم اعرجی، بارزانی کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ عمل دشمن کی خدمت کا ذریعہ ہے۔
مذکورہ خبروں کے عام ہونے کے بعد بعض نیوز ایجنسیوں نے عراق کی قومی اسمبلی کے رکن ’’ فردوس العوادی‘‘ (جو کہ نوری مالکی کے حامی گروپ کے ہیں،) کی جانب سے کہا کہ وہ بھی داعش دہشت گرد گروہ کے خاتمہ کے بعد تین آزاد حکومتوں کی تشکیل پر تاکید کررہے ہیں۔
کرد ڈموکریٹیک سے وابستہ سائٹ کردی سائٹ، ’’باس نیوز‘‘نے خوشی کا اظھار کرتے ہوئے اس بیان کا ’’حزب الدعوۃ کی جانب سے کردی صوبے کی خودمختاری کی حمائت‘‘ کے عنوان سے استقبال کیا ہے۔
لیکن فردوس العوادی نے اس انٹرویو کی تکذیب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بے بنیاد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپس میں یکجہتی کا نہ ہونا عراق کے لئے ریڈ لائین ہے۔
عراقی پارلیمنٹ کے رکن’’عواطف نعمہ‘‘کہتے ہیں: اس طرح کے بیانات جہنم کی آگ کو عراقی عوام کے لئے بھڑکانے کا کام کرتے ہیں، عراق کی مشکلیں کردی عوام کے لئے اہم نہیں ہے اور ان کے لئے صرف اور صرف اپنے مفاد اہم ہیں، کرد حکومت عراق اور عراقیوں کے لئے فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتی۔
۳۔ کرد
عراق کی دو اہم کرد حکومتوں نے یعنی PUK اور گوران تحریک نے (ڈموکریٹٰک کرد تحریک کے علاوہ) اس بات پر رد عمل کا اظھار کیا ہے۔ عراق کی قومی اسمبلی اور PUK کے ممبر’’شوان داوودی‘‘ کہتے ہیں: مسرور بارزانی کے بیانات کردوں کے ایک خاص طبقے کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیا گیا ہے ، عراق میں کرد متحد نہیں ہیں اور قانون کی کمزوری کی بناپر وہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
عراق کی قومی اسمبلی کي رکن’’سروہ عبدالواحد‘‘ جو گوران تحریک سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی بارزانی کے خلاف بیان دیتے ہوئے نظر آئیں۔
امریکہ، عراق میں اتحاد کا حامی
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں سےگفتگو کرتےہوئے مسرور بارزانی کے بیانات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عراق کے سیاسی مسائل کے سلسلہ میں امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور ہم فیڈرل اور ڈموریٹیک نیز متحد و کثیر الجہتی عراق کی حمایت کرتے رہیں گے۔
بہرحال عراق میں مختلف شعبوں میں اختلافات عراق کے سیاسی اور سیکورٹی لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں اس سے اس ملک کے تقسیم کا خطرہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں عوام اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد بھی بہت ضروری ہے۔
فوجی کی جانب سے عراق کے مختلف علاقوں میں آپریشن، خاص طور سے فلوجہ کی آزادی نے عراقی عوام کے جذبات کو مزید ابھارا ہے اور یہ کاروائی موصل کی آزادی کا مقدمہ بن سکتی ہے، اسی طرح عراقی حکومت کی کھوئی ہوئی طاقت بھی واپس ہوتی نظر آرہی ہے۔
کرد علاقے میں بھی صرف کرد ڈموکریٹٰک سیاسی جماعت جدائی کا نعرہ بلند کئے ہوئے ہے اور پانچ کرد صوبوں میں سے تین صوبے (سلیمانیہ، کرکوک اور حلبچہ) اس جماعت کے اہداف اور خیالات کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔