الوقت - بی جے پی اور متعدد دیگر بھگوا تنظیموں کے اراکین آئے دن جس طرح کی بد کلامی اور بد دماغی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ کسی بھی مہذب سماج کے لئے زہرناک ہے۔ سیاسی مفادات کے اسیر، ان بیہودگی پسند لوگوں کو سماج پر اس کے اثرات کا اندازہ نہیں ہےورنہ یہ جانتے کہ عوامی پلیٹ فارم سے کس شائستگی کے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے۔ انہیں نہ تو سماجی زندگی کے طور طریقوں سے واقفیت ہے نہ ہی مجلسی آداب کا کچھ علم ہے۔ جب اتنا بھی نہیں ہے تو انہیں یہ شعور کیوں کر ہوگا کہ سخت سے سخت بات نرم سے نرم زبان میں کی جاسکتی ہے۔
کاش ہمارے ملک میں، میدان سیاست میں داخلہ کے لئے علمی لیاقت یا تہذیبی اقدار سے واقفیت کی کوئی شرط ہوتی! چونکہ ایسا کوئی نظم نہیں ہے اس لئے جس کے جی میں جو آتا ہے، وہ بک دیتا ہے اور متنازع بن جانے کے باوجود فائدہ میں رہتا ہےکہ اخباراتجاور ٹی وی چینلوں کی سرخیوں میں رہنے کا موقع تو مل جاتا ہے۔ شاید مجمع سے تالیاں بجوانے اور اخبارات کی سرخیوں میں رہنے کا خبط ہی ہے جو ان سے بار بار ایسے جملے اور ایسی باتیں کہلوا رہا ہے۔
ابھی سادھوی پراچی کے ’’مسلم مکت بھارت‘‘ کی آگ سرد بھی نہیں ہوئی تھی کہ راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ نے سابق وزیر آعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ’’سالا‘‘ کہہ دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بیان وزیر آعظم نریندر مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دیا گیا ہے لیکن زیر بحث بیان میں، جس میں مذکورہ لفظ استعمال کیا گیا، کیا ضروری تھا کہ سابق وزیر آعظم کا نام لیا جاتا اور انہیں اس لفظ سے نوازا جاتا جسے وطن عزیز میں گالی تصور کیا جاتا ہے؟
اور ابھی اس لفظ کے استعمال کی مذمت جاری ہی تھی کہ مہاراشٹر کے رکن اسمبلی روندر چوان دلتوں کا خنزیر سے موازنہ کر کے دلت دشمنی ہی نہیں، انسان دشمنی کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔
اول الذکر گلاب چند کٹاریہ کا کہنا ہے کہ ان کا لب و لہجہ ہی ایسا ہے اور وہ اکثر تقریروں میں اسی انداز میں گفتگو کرتے ہیں حالانکہ انہیں’’اس کا افسوس ہے!‘‘ اگر یہی ان کی پہچان ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا وزارتی منصب پر پہنچنے کے باوجود انہیں یہ احساس نہیں ہوا ہے کہ اب ان کا لب و لہجہ سنبھلا ہوا ہونا چاہئے تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو؟ الفاظ تو الفاظ، وزیر ہونے کے باوجود انہیں حقایق کا علم بھی نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جب سابق وزیر آعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ بیرونی دوروں پر ہوتے تھے تو میزبان ملک کے بادشاہ، وزراء، ان کی نصف بہتر اور اعلی حکام ان کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے۔ حقایق کا علم نہ ہونا تو افسوس ناک ہے ہی موجودہ وزیر آعظم کا سابق وزیر آعظم سے موازنہ بھی افسوس ناک ہے۔
آخر الذکر ررویند چوان کے بیا ن کو سامنے رکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خنزیر سے دلتوں کے موازنہ کے لئے ابراہم لنکن کی بیان کردہ کسی کہانی کا حوالہ دیا۔ اس سے ان کے پڑھا لکھا ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن ایسا پڑھا لکھا ہونا کیا معنی رکھتا ہے کہ آپ ملک کی آبادی کےاس اہم حصے کو اب بھی اذیت دیں جو برسہا برس سے طرح طرح کے مظالم کی زد پر رہتا آیاہے؟
چونکہ پارٹی اعلی کمان کی جانب سے ایسے گستاخ لوگوں کی سرزنش نہیں ہوتی اس لئے بد کلامی کے یہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ پارٹی اگر کچھ کہتی بھی ہے تو صرف اتنا کہ بیان سےاس کا تعلق نہیں یا بیان اس کے موقف کی ترجمانی نہیں کرتا۔ یہ وضاحت ہے سرزنش یا کوشمالی نہیں۔ ایسے لوگوں کی باقاعدہ کوشمالی ہونی چاہئے وہ بھی سخت کارروائی کی شکل میں۔ کارروائی نہ ہونے کا ایک ہی مطلب ہے۔ وہ یہ کہ ایسے بیانات کو پارٹی اعلی کمان کی تائید حاصل ہے!