الوقت - ذرائع ابلاغ میں آج کل ایک خبر سرخیوں میں ہے کہ کافی عرصے کے بعد فلسطینی کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس ایران سے دوبارہ رابطے میں ہے۔ دوبارہ رابطے کا مطلب یہ ہے کہ بحران شام کے آغاز سے ایران اور حماس کے درمیان اس مسئلے کو لے کر کافی کشیدگی ہوگئی تھی۔
بحران شام کے آغاز سے ہی ایران نے ہمیشہ اس کے سیاسی حل پر تاکید کی اور کہا اس کا فوجی حل نہیں ہے لیکن علاقے کی کچھ رجعت پسند طاقتوں نے بحران شام کا فائدہ اٹھا کر شامی عوام کے خون سے ہولی کھیلنے لگیں۔ شام کا بحران شروع ہوا اور لوگوں نے بشار اسد کی قانونی حکومت کا تختہ پلٹنے کا فیصلہ کر لیا لیکن یہاں پر بھی ایران نے اپنے قدیمی اتحادی اور مزاحمت کے محور کی کھل کر حمایت کی۔ شام کے بحران کے آغاز سے کچھ عرصے تک حماس نے اس حوالے سے کوئی موقف اختیار نہیں کیا لیکن کافی عرصہ گزر جانے کے بعد حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ جو کافی عرصے سے شام میں مقیم تھے، اچانک قطر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ابھی ان کے فیصلے کی خبر میڈیا میں باضابطہ آئی نہیں تھی کہ مغربی اور کچھ عرب میڈیا نے کہنا شروع کردیا کہ خالد مشعل شام کی حکومت سے ناراض ہوکر شام سے قطر کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔
بہرحال خالد مشعل مزاحمت کے مرکز سے نکل کر مزاحمت کے دشمن کے پالے میں چلے گئے۔ تصور یہ کیا جا رہا تھا کہ خالد مشعل کی ناراضگی سے بشار اسد کی حکومت کچھ کمزور پڑ جائے گی اور بشار اسد ناراضگی میں حماس کے خلاف بیان دیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ بشار اسد نے ہر انٹرویو میں جس میں فلسطین کی مزاحمت کے بارے میں سوال کیا گیا ایک ہی جواب دیا، فلسطین کی آزادی کا ایک ہی راستہ ہے مزاحمت۔ انہوں نے بارہا تاکید کی کہ میں مزاحمت کی حمایت جاری رکھوں گا، اس کے لئے مجھے چاہے جیسی قیمت ادا کرنی پڑے۔ یہاں پر بھی بشار اسد کے مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے آنے کے بعد سے ہی امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے فلسطین کی حمایت اور صیہونی حکومت کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔ اُس وقت مسلمان تقریباً فلسطین کا مسئلہ بھول چکے تھے،حضرتِ امام کے تشریف لانے سے مسئلہ پھر سے زندہ ہوا، ایران کے انقلاب اسلامی نے مسئلہ کو زندہ کیا اور جس دن انقلاب کی بیل پڑی امام خمینی نے فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ ہمارا دینی اورقومی مسئلہ اور ہمار ے اہداف اور مطالبات کا حصہ ہونا چاہیئے ۔ یعنی آغاز انقلاب سے ہی ایران مسئلہ فلسطین کا حامی رہا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کا اہم ہدف دنیا کے مظلوم عوام اور ملتوں کی حمایت کرنا تھا۔ بہرحال، مزاحمت کے دشمن یہ تصور کر رہے تھے کہ بشار اس کی حکومت کی سرنگونی سے مزاحمت کمزور ہو جائے گی اور مزاحمت کا مرکز تباہ ہو جائے لیکن شام کی فوج، عوام اور رضاکاروں نے اپنے خون سے مزاحمت کے پودھے کی آبیاری کی ہے اور آج وہ ایک تناور درخت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ عرب دنیا خاص کر مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی نے مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا یہ ایران اور حزب کا لطف ہے جو آج ہر ایک کی زبان پر مسئلہ فلسطین ہے۔ عرب دنیا نے مسئلہ فلسطین کو اپنی ترجیحات سے نکال دیا تھا اور یہاں تک کہ کچھ عرب حکومتیں اپنے تخت و تاج کو بچانے کے لئے اسرائیل سے تعلقات قائم کر رہی ہے۔ اس سے مقابلے میں ایران نے مسئلہ فلسطین کو مزید برملا کیا ۔ ایران کی جانب سے اپنے اتحادیوں کی حمایت کوئی نئی چیز نہیں ہے، ایران نے بوسنیا سے لے کے فلسطین اور شام سے لے کے یمن تک تمام مظلوم ملتوں کی حمایت کی ہے اور کرتا رہے گا۔ ہماری اس بات پر بہترین دلیل یہ ہے کہ علاقے میں مزاحمت جاری ہے اور انتفاضہ سوم کی آہٹ سے صیہونی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے تحریک حماس کے رہنما موسی ابو مرزوق نے کہا ہے کہ حماس، اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات کے فروغ میں دلچسپی رکھتی ہے۔
تحریک حماس کے رہنما موسی ابو مرزوق نے کہا ہے کہ ایران عالم اسلام کا ایک بڑا ملک ہے کہ جس کے ساتھ ماضی میں بھی ہمارے تعلقات رہے ہیں اور اب بھی ہم ان تعلقات کو برقرار رکھنے میں کوشاں ہیں اور بعض ملکوں کے آپسی مسائل، اس سلسلے میں مانع نہیں بن سکتے- ابو مرزوق نے کہا کہ حماس مذہبی اور نسلی مسائل پر توجہ کئے بغیر دیگر علاقائی فریقوں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے اور اس مسئلے کو اپنے اور ملت فلسطین کے فائدے میں سمجھتی ہے
تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے رکن موسی ابومرزوق نے الاقصی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے بارے میں حماس کے موقف کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ حماس فلسطینی کاز اور فلسطینی قوم کی حمایت کرنےوالے ہر ملک کی شکرگزار ہے، اس کی قدردانی کرتی ہے اور اس کے لئے بہت احترام کی قائل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں ایران کا مقام واضح ہے خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ استقامت کی حمایت کے سلسلے میں تہران کا موقف عرب اور مسلمان اقوام اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے موقف سے ہم آہنگ ہے۔
اس سے پہلے فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک میں ایران نے سب سے زیادہ فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے۔
لبنان کے المیادین ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حماس کے سینیئر رہنما اسماعیل رضوان نے جمعرات کے دن ایران اور حماس کے تعلقات میں سرد مہری آنے سے متعلق افواہوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم فلسطینی استقامت کی حمایت سے متعلق ایران کے مواقف کی قدردانی کرتے ہیں اور ہم اس بات کے قائل ہیں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران نے فلسطینی کاز کی سب سے زیادہ حمایت کی ہے۔