الوقت - رقہ شہر، صوبہ رقہ کا مرکز ہے اور اس کا رقبہ 1900 مربع کیلومیٹر ہے۔ اس شہر کی آبادی 2011 میں تقریبا دو لاکھ 20 ہزار تھی اور یہ علاقہ شمال مشرقی شام میں واقع ہے۔ اس شہر پر اپریل 2013 میں داعش نے قبضہ کر لیا تھا اور 29 جون 2014 کو اس شہر کو داعش کے دارالحکومت کی حیثیت سے قرار دیا گیا ۔ رقہ کی آزادی کی کاروائی 24 مئی 2016 کو شروع ہوئی جس میں تیس ہزار افراد شریک ہیں۔ ان میں 25 ہزار کرد اور 5 ہزار عرب جنگجو شامل ہیں۔ اسی طرح تقریبا 500 امریکی فوجی بھی اس کاروائی میں شامل ہیں جن کو داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد کا فضائی مدد حاصل ہے۔ ذرائع ابلاس جس چيز پر سب سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں وہ داعش کے خلاف جنگ کے محاذ پر بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی براہ راست موجودگی ہے۔ 2010 میں مشرق وسطی میں بحران شروع ہوتے ہی کبھی بھی امریکی فوجیوں نے کسی بھی جنگی محاذ پر مشارکت نہیں کی اور ان کی موجودگی صرف مشیروں کی حد تک ہی رہی ہے۔ موجود وقت میں نئے بحران کے شروع ہونے سے امریکا نے رقہ کی آزادی کی مہم میں براہ راست شرکت کی اور واشنگٹن کے حکام کے لئے اس شہر کی اہمیت بڑھ گئي ۔ اسی تناظر میں رقہ کی جنگ اور اس محاذ پر امریکیوں کی براہ راست موجودگي کے اہداف پر نظر ڈالی جائے گی۔
امریکی صدر باراک اوباما نے 2015 کے نئے سال کی مناسبت سے اپنے خطاب میں متزلزل حالت میں اعلان کیا کہ اب تک ہمارے پاس داعش سے مقابلےکے لئے مشخص حکمت عملی نہیں ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کو اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ 2015 کے آخر تک امریکا کے پاش داعش سے مقابلے کے لئے کوئی مشخص حکمت عملی نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ گرچہ امریکا کی قیادت میں داعش مخالف اتحاد بن گيا ہے لیکن واشنگٹن کی جانب سے داعش کے خاتمے یا اس گروہ سے مقابلے کے لئے کبھی بھی سنجیدہ ارادہ ظاہر نہیں کیا گیا لیکن بحران شام میں روس کی بھرپور موجودگی کے بعد سے امریکی وزارت دفاع کے حکام داعش سے مقابل کے لئے مضبوط حکمت عملی بنانے پر مجبور ہوگئے۔
اسی تناظر میں انہوں نے مختلف سطح پر داعش مخالف فوجیوں سے اپنی حمایت میں اضافہ کر دیا لیکن شام میں امریکا کا کردار زیادہ ہی اہم ثابت ہوا اور اس نے کردوں کی حمایت کرکے شام کی فوجی تبدیلیوں میں سرگرم کردار ادا کیا۔ موجودہ وقت میں رقہ اور اس شہر کی آزادی کی مہم میں امریکی فوجیوں کی موجودگی، امریکا کے لئے طاقت کے اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ موجود وقت میں امریکا مشرق وسطی میں اپنی کمزور ہوچکی حالت کو مضبوط کرنے اور داعش کے مقابلے میں سرگرم کردار ادا کرنے پر تاکید کر رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس نے داعش کو کمزور کرنے اور اس کو تباہ کرنے کو اپنے پروگرام میں شامل کر لیا ہے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے تناظر میں داعش کے ديگر زیر کنٹرول علاقوں یعنی موصل سے جو عراق میں ان کا دار الحکومت تصور کیا جاتا ہے، رابطہ منقطع کرنا، رقہ کی آزادی کے لئے امریکا کے لئے سب سے بنیادی چيز ہے۔
2011 کے بعد سے اب تک شام کی سیاسی اور فوجی تبدیلیوں میں امریکا کا کچھ زیادہ کردار نہیں رہا ہے۔ اب وائٹ ہاوس کے حکام کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ شام میں اپنے اصل اتحادی کی حیثیت سے شامی ڈیموکریٹ کے جنگجوؤں کی حمایت کے ذریعے شام میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کر سکتا ہے۔ در حقیقت 2015 کے بعد امریکا چاہتا ہے کہ وہ ایک ایسے سنی عرب اپوزیشن کو پیدا کرلے جو امریکا کے اتحادی ہو اور اس کا وفادار ہو۔ شام کے بحران میں ماسکو کے بھرپور طریقے سے کود جانے کے بعد روس میدان مار لے گیا اور امریکی وزارت دفاع نے معتدل شامی حکومت کے مخالفین کے درمیان سے ایک فوجی دستہ تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی تناظر میں امریکا نے معتدل کردوں اور عربو سے شام کے ڈیموکریٹ فوجیوں کو تیار کیا جن پر پچاس کروڑ ڈالر کا خرچہ آیا۔
بہرحال شامی ڈیموکریٹ فوجی 15 نومبر 2015 سے جون 2016 تک 26 ہزار مربع کیلومیٹر میں پیشرفت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ ان کی تشکیل سے اب تک کی سب سے اہم کامیابی ہے۔ بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اپنے حامی فوجیوں کی حمایت کرکے شام کے محاذ میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ پانے کی کوشش میں ہے اور شام کے ڈیموکریٹ فوجی اس مہم میں اس کے سب سے بڑے مہرے شمار ہوتے ہیں۔