الوقت – جنوری 2014 میں عراق کے صوبہ الانبار کے شہر فلوجہ پر داعش کا قبضہ، داعش کی جانب سے پیر جمانے کے لئے اہم موڑ تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دو سال میں یہ یہ خبر دنیا کے اہم اخباروں میں سرخیوں میں رہی۔
2014 کے شروعاتی مہینوں میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اسی سال جون میں عراقی فوج اور رضا کار فورس داعش کے دوسرے سب سے بڑے شہراور سب سے بڑی آبادی والے شہر موصل پر کنٹرول کر لیں گے جہاں 5 جولائی 2014 کو داعش کے نام نہاد خلیفہ ابو بکر البغدادی نے خطبہ خلافت پڑھا تھا تاہم دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد 23 مئی 2016 کو آخرکار عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کے حکم پر عراقی فوج اور رضاکار فورس (الحشد الشعبی) نے داعش کے جنگل سے فلوجہ شہر کو آزاد کرانے کے لئے وسیع آپریشن شروع کر دیا۔ فلوجہ شہر کی جانب عراقی فورس کی تیز پیشرفت اور داعش کے ارد گرد گھیرے کے تنگ ہونے سے یہ امید تھی کہ بہت کی کم مدت میں فلوجہ کو داعش کے چنگل سے آزاد کرا لیا جائے گا لیکن تمام اندازوں اور پیشن گوئیوں کے باوجود ہم نے ابھی تک فلوجہ کی آزادی اور اس شہر کے مرکز پر فوج کے کنٹرول کا مشاہدہ نہیں کر سکے ہیں۔
فلوجہ شہر پر فوج کے مکمل کنٹرول اور اس شہر کی آزادی میں تاخیر کے حوالے سے سعودی عرب کا کردار اہم تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ در حقیقت سعودی حکام نے فلوجہ شہر کی جانب فوج کی پیشرفت کے آغاز میں ہی حکومت سے مذاکرات کئے تاکہ وہ فلوجہ پر حملے کو 36 گھنٹے تاخیر کر دے اور اسی کے ساتھ فلوجہ شہر میں فوج اور رضاکار فورس کے داخل ہوتے ہی عراق میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان فرقہ وارانہ جنگ کا مسئلہ پیش کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکام کے اس طرح بیانات اور سلوک سے پتا چلتا ہے کہ وہ فلوجہ سے داعش کے جنگجوؤں کو محفوظ طریقے سے نکلنے، طاقت کو دوبارہ جمع کرنے اور شہر فلوجہ پر کنٹرول میں تاخیر چاہتے تھے۔ اس بارے میں دقیق تجزیہ پیش کرنے سے پہلے فلوجہ کا آپریشن شروع ہونے سے پہلے سعودی حکام کے بیانات پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ہم شہر فلوجہ شہر پر کنٹرول کے لئے زیاض کی فرقہ واریت اور دہری پالیسیوں پر نظر ڈالیں گے۔
عراقی فورس اور رصاکار فورس کے جوانوں کی پیشرفت کے آغاز میں الوقت سایٹ کی رپورٹ کے مطابق، عراق میں سعودی عرب کے سفیر نے وزارت دفاع کے حکام سے ملاقات کی اور سعودی عرب کا یہ پیغام دیا کہ داعش، شہر فلوجہ شہر پر فوج اور رضاکار فورس کے کنٹرول کو آسان کر دے گا۔ اس بیان میں سعودی عرب کے سفیر نے سعودی شہریوں خاص طور پر 300 سعودی خواتین اور شہر کے عام شہریوں کے قتل عم کو روکنے کا بہانہ پیش کیا تاکہ فلوجہ کے آپریشن کو 36 گھنٹے تاخیر کر دیا جائے۔ اس کے مقابلے میں سعودی حکام اس بات پر پابند ہوئے کہ اس مدت میں داعش کے جنگجوؤں علاقے سے باہر نکل جائیں گے۔ در ایں اثنا الحشد الشعبی کے کمانڈر ابو ہاشم فنیان الولائی نے تاکید کی کہ بغداد میں تعینات سعودی سفیر 36 گھنٹے کی مہلت کے ذریعے شہر سے داعش کے دہشت گردوں کو محفوظ نکالنا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ ہوا بلکہ کہ کم مدت کی تاخیر، طاقت کو جمع کرنے اور اپنی دفاعی لائن پر مضبوط کرنے کا سبب بنی۔
اسی عمل کے تحت، فلوجہ شہر میں فوج اور رضاکار فورس کے داخل ہونے اور عراقی فوج کی جانب سے عام شہریوں کے خلاف غیر انسانی اقدامات پر مبنی رپورٹوں کے جاری ہونے کے فورا بعد بغداد میں سعودی سفیر ثامر السبہان نے ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا اور عراق کے داخلی امور میں ایران کی مداخلت کا دعوی کرتے ہوئے لکھا کہ عراق میں قومی جنگ، فلوجہ کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ سبہان نے کچھ فوجیوں کی جانب سے عوام پر کئے گئے مظالم کو جن کو بعد میں سزا بھی دی گئی، سنی سے شیعوں کی انتقامی کاروائی کا نام دینے کی کوشش کی اور فلوجہ کی جنگ کو مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ کے تناظر میں پیش کیا۔ ان کے اس بیان پر عراق کی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد جمال نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے چنگل سے ملک کے دوسرے علاقوں کو آزاد کرانے کے لئے عراقی حکومت کو مزید بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عراقی فوج اور رضاکار فورس، عام شہریوں کو مدد پہنچانے اور ان کی جان و مال کی حفاظت میں زیادہ سرگرم ہے۔
بہرحال جایزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ فلوجہ کو داعش کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے فوج کے آپریشن میں مانع تراشی، داعش کو دوبارہ منظم کرنا اور ان کو طاقت جمع کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کے حکام صدام کی حکومت کی سرنگونی کے بعد عراق کی نئی تبدیلیوں کے حوالے سے ہمیشہ سے ہی اعتراض کرتے رہے ہیں اور انہوں نے عراق کی حکومت کو ناکام بنانے کی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا۔ داعش کے بعد عراق کی نئی تبدیلیاں، شیعوں کو کمزور کرنے پالیسی اپنانے کے لئے ریاض کے حکام کے لئے سنہری موقع تھا۔