الوقت - عراق سے امریکی فورسز کے 2011 میں انخلاء کے بعد، حالیہ برس میں امریکہ کی پوزیشن نہ صرف عراق بلکہ مشرق وسطی میں کمزور ہوئی ہے۔
سنہ 2014 میں داعش کے مشرق وسطی میں ظاہر ہونے سے اس خطے کے امور کے بندوبست میں امریکہ کی ناچاری اور بے بسی پہلے سے زیادہ واضح ہوگئی۔ امریکی صدر باراک اوباما کی خارجہ پالیسی کے اصول کی بنیاد نیابتی جنگ اور داعش کے بحران میں خطے کے اتحادیوں کی براہ راست مدد پر منحصر تھی تاہم یہ پالیسی اس لئے ناکام ہوگئی کیونکہ واشنگٹن جن فورسز کے ساتھ اپنے اتحادی کی حیثیت سے تعاون کر رہا تھا وہ یا تو شام میں انتہا پسند فورسز تھیں یا پھرعراق میں وہ فورسزتھیں جو ایران اور روس کے قریب ہیں۔ حالات اس طرح آگے بڑھے کہ اوباما نے 2015 کے شروع میں اپنے سالانہ خطاب میں ناقابل یقین لہجے میں کہا، ”اس وقت امریکا کے پاس داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ “
اس کے علاوہ ستمبر 2015 کے آخری دنوں میں شام کے بحران میں روسی فوج کی موجودگی سے مشرق وسطی کے بحران کے تعلق سے امریکا کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت کا زیادہ احساس کیا جانے لگا۔ – اس کے بعد سے امریکی خارجہ پالیسی کے نظام کے نظریہ پردازوں نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں امریکہ کے نفوذ کو باقی رکھنے اور داعش کے خلاف جنگ کے محاذ پر موجودگی سے متعلق واضح پروگرام ہو۔ اس حوالے سے جسے سب سے پہلا یا سب سے اہم قدم کہا جا سکتا ہے وہ شام میں 15 نومبر 2015 کو شام میں ڈیموکریٹک شامی فورسز کی تشکیل تھی۔ اس فورس کی تشکیل کی ابتدا میں جو کرد فورس اور کچھ عرب میلیشیا فورس پر مشتمل تھی، شاید کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ امریکا مستقبل میں اس فورس کو مشرق وسطی میں اپنی کمزور پڑ چکی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کرے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکی سیاسیتدانوں نے موجودہ صورت حال میں شام میں وائی پی جی اور وائی پی جے فورسز اور عراقی کردستان کے علاقے کی پیشمرگہ فورسز کی حمایت کے ذریعے دو بحران کے مرکز یعنی عراق اور شام میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح مشرق وسطی میں اپنی پوزیشن کو بہتر کرسکے۔ اس کا عملی نمونہ رقہ کو آزاد کرانے کی کارروائی کے دوران سامنے آیا۔ رقہ میں پہلی بار امریکی فوجی براہ راست جھڑپوں میں موجود تھے۔ واشنگٹن کے اس رویے سے یہ ظاھر ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی کے مستقبل کو روس کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔
جیسا کہ سب نے یہ دیکھا کہ گزشتہ ہفتے روسی حکام کی طرف سے رقہ کی آزادی کی کارروائی میں داعش کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ تعاون کی پیشکش کو امریکی حکام نے ٹھکرا دیا۔ امریکا نیٹو کے سب سے بڑے حریف کے ساتھ براہ راست تعاون نہیں چاہتا کیونکہ نیٹو کے سب سے اہم رکن کی حیثیت سے اس فوجی تنظیم کے ممبران کے تعلق سے اس پر کچھ خاص ذمہ داریاں ہیں اور دوسری طرف اس کے علاقائی اتحادی ترکی کے تعلق سے بھی کچھ سیاسی اسباب ہیں جو اسے ماسکو کے ساتھ براہ راست طور پر تعاون سے روک رہی ہیں۔
اس چیز کو اگر دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ ترکی۔ روس کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر اور شام کی کرد فورسز کو دہشت گرد کے زمرہ میں شامل کرنے کی انقرہ کی درخواست پر خاموشی اختیار کرکے، خطے میں روس اور ترکی کی پوزیشن کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے بعد مشرق وسطی میں اپنی پوزیشن کو مضبوظ کرنے کی کوشش کرے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں امریکی نظام خارجہ پالیسی شام اور عراق میں کردوں کی حمایت کرکے مشرق وسطی میں اپنی پوزیشن کو مضبوط اور بین الاقوامی سطح پر اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔ اس حکمت عملی میں وائٹ ہاؤس کے لئے کرد دو طرح سے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ داعش کے بحران کے ظاھر ہونے کے بعد کرد ایسے کھلاڑی کی شکل میں سامنے آئے ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں اور اس میں مخالفین کے قتل عام کے لئے مذھبی و قومی انتہاء پسندی کا رجحان ظاہر نہیں ہوا ہے۔ دوسرے بین الاقوامی سطح پر کرد فوجیوں کی بہتر شبیہ ہے۔ بہت سے مغربی ذرائع ابلاغ انہیں آزادی، جمہوریت اور دنیا کے نجات دھندہ کے نام سے یاد کیا ہے۔