:: الوقت ::

ہمارا انتخاب

خبر

زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

ڈاکومینٹس

صیہونی حکومت

صیہونی حکومت

صیہونی حکومت اپنے زوال کے سفر پر تیزی سے رواں دواں ہے اور ہرآنے والا دن اس غاصب اور غیر قانونی حکومت کو سیاسی تنہائیوں کی طرف دھکیل رہا ہے
اسلامی تحریکیں

اسلامی تحریکیں

ماضی اور حال کی اسلامی تحریکوں کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جہاں قیادت بابصیرت اور اپنے اھداف میں مخلص تھی وہاں کامیابیاں نصیب ہوئیں اور قربانیاں رنگ لائیں اور جہاں قیادت ۔۔
وهابیت

وهابیت

برطانوی سامراج کا لگایا یہ درخت ایک شجر سایہ دار میں تبدیل ہوکر طالبان،داعش،النصرہ۔الشباب اور بوکوحرام کی صورت میں اسلام اور مسلمانوں کو کھوکھلا کرنے میں پیش پیش ہے ۔
طالبان

طالبان

اسلام اور افغانستان کی آذادی کے نام پر وجود میں آنے والا یہ گروہ پاکستان اور افغانستان کے لئے ایک ایسے ناسور میں بدل گیا ہے جو نہ صرف اسلام کو بدنام کرنے میں پیش پیش ہے بلکہ اس کے وجود سے خطے کی اسلامی قوتوں کو بھی شدید نقصان
استقامتی محاز

استقامتی محاز

حزب اللہ کے جانثاروں نے اپنی لہو رنگ جد و جہد سے غاصب صیہونی حکومت کو ایسی شکست دی ہے جس سے خطے میں طاقت کا توازن مکمل طور پر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے اور استقامتی اور مقاومتی محاز
یمن

یمن

یمن کیجمہوری تحریک نے آل سعود سمیت خطوں کی دیگر بادشاہتوں کو نئے چیلنجوں سے دوچار کردیا ہے۔سعودی جارحیت آل سعود کے لئے ایک دلدل ثابت ہوگی۔
پاکستان

پاکستان

امریکی مداخلتوں کا شکار یہ ملک آج اس مرحلہ پر پہنچ گیا ہے کہ امریکہ کے علاوہ خطے کے بعض عرب ممالک بھی اسے اپنا مطیع و فرماندار بنانا چاہتے ہیں
داعش

داعش

سی آئی اے اور موساد کی مشترکہ کوششوں سے لگایا گیا یہ پودا جسے آل سعود کے خزانوں سے پالا پوساگیا اب عالم اسلام کے ساتھ ساتھ اپنے بنانے والوں کے لئے بھی خطرہ۔۔۔۔
alwaght.net
تجزیہ

کردوں کے ذریعے، مشرق وسطی میں امریکی کمزور پوزیشن کو بہتر بنانے کی کوشش

Friday 3 June 2016
کردوں کے ذریعے، مشرق وسطی میں امریکی کمزور پوزیشن کو بہتر بنانے کی کوشش

الوقت - عراق سے امریکی فورسز کے 2011 میں انخلاء کے بعد، حالیہ برس میں امریکہ کی پوزیشن نہ صرف عراق بلکہ مشرق وسطی میں کمزور ہوئی ہے۔

سنہ 2014 میں داعش کے مشرق وسطی میں ظاہر ہونے سے اس خطے کے امور کے بندوبست میں امریکہ کی ناچاری اور بے بسی پہلے سے زیادہ واضح ہوگئی۔ امریکی صدر باراک اوباما کی خارجہ پالیسی کے اصول کی بنیاد نیابتی جنگ اور داعش کے بحران میں خطے کے اتحادیوں کی براہ راست مدد پر منحصر تھی تاہم یہ پالیسی اس لئے ناکام ہوگئی کیونکہ واشنگٹن جن فورسز کے ساتھ اپنے اتحادی کی حیثیت سے تعاون کر رہا تھا وہ یا تو شام میں انتہا پسند فورسز تھیں یا پھرعراق میں وہ فورسزتھیں جو ایران اور روس کے قریب ہیں۔ حالات اس طرح آگے بڑھے کہ اوباما نے 2015 کے شروع میں اپنے سالانہ خطاب میں ناقابل یقین لہجے میں کہا، ”اس وقت امریکا کے پاس داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ “

اس کے علاوہ ستمبر 2015 کے آخری دنوں میں شام کے بحران میں روسی فوج کی موجودگی سے مشرق وسطی کے بحران کے تعلق سے امریکا کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت کا زیادہ احساس کیا جانے لگا۔ – اس کے بعد سے امریکی خارجہ پالیسی کے نظام کے نظریہ پردازوں نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں امریکہ کے نفوذ کو باقی رکھنے اور داعش کے خلاف جنگ کے محاذ پر موجودگی سے متعلق واضح پروگرام ہو۔ اس حوالے سے جسے سب سے پہلا یا سب سے اہم قدم کہا جا سکتا ہے وہ شام میں 15 نومبر 2015 کو شام میں ڈیموکریٹک شامی فورسز کی تشکیل تھی۔ اس فورس کی تشکیل کی ابتدا میں جو کرد فورس اور کچھ عرب میلیشیا فورس پر مشتمل تھی، شاید کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ امریکا مستقبل میں اس فورس کو مشرق وسطی میں اپنی کمزور پڑ چکی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کرے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ امریکی سیاسیتدانوں نے موجودہ صورت حال میں شام میں وائی پی جی اور وائی پی جے فورسز اور عراقی کردستان کے علاقے کی پیشمرگہ فورسز کی حمایت کے ذریعے دو بحران کے مرکز یعنی عراق اور شام  میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح مشرق وسطی میں اپنی پوزیشن کو بہتر کرسکے۔ اس کا عملی نمونہ رقہ کو آزاد کرانے کی کارروائی کے دوران سامنے آیا۔ رقہ میں پہلی بار امریکی فوجی براہ راست جھڑپوں میں موجود تھے۔ واشنگٹن کے اس رویے سے یہ ظاھر ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی کے مستقبل کو روس کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔

جیسا کہ سب نے یہ دیکھا کہ گزشتہ ہفتے روسی حکام کی طرف سے رقہ کی آزادی کی کارروائی میں داعش کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ تعاون کی پیشکش کو امریکی حکام نے ٹھکرا دیا۔ امریکا نیٹو کے سب سے بڑے حریف کے ساتھ براہ راست تعاون نہیں چاہتا کیونکہ نیٹو کے سب سے اہم رکن کی حیثیت سے اس فوجی تنظیم کے ممبران کے تعلق سے اس پر کچھ خاص ذمہ داریاں ہیں اور دوسری طرف اس کے علاقائی اتحادی ترکی کے تعلق سے بھی کچھ سیاسی اسباب ہیں جو اسے ماسکو کے ساتھ براہ راست طور پر تعاون سے روک رہی ہیں۔

اس چیز کو اگر دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ ترکی۔ روس کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر اور شام کی کرد فورسز کو دہشت گرد کے زمرہ میں شامل کرنے کی انقرہ کی درخواست پر خاموشی اختیار کرکے، خطے میں روس اور ترکی کی پوزیشن کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے بعد مشرق وسطی میں اپنی پوزیشن کو مضبوظ کرنے کی کوشش کرے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں امریکی نظام خارجہ پالیسی شام اور عراق میں کردوں کی حمایت کرکے مشرق وسطی میں اپنی پوزیشن کو مضبوط اور بین الاقوامی سطح پر اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔ اس حکمت عملی میں وائٹ ہاؤس کے لئے کرد دو طرح سے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ داعش کے بحران کے ظاھر ہونے کے بعد کرد ایسے کھلاڑی کی شکل میں سامنے آئے ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں اور اس میں مخالفین کے  قتل عام کے لئے مذھبی و قومی انتہاء پسندی کا رجحان ظاہر نہیں ہوا ہے۔ دوسرے  بین الاقوامی سطح پر کرد فوجیوں کی  بہتر شبیہ ہے۔ بہت سے مغربی ذرائع ابلاغ انہیں آزادی، جمہوریت  اور دنیا کے نجات دھندہ    کے نام سے یاد کیا ہے۔

 

ٹیگ :

امریکا شام کرد باشندے

نظریات
نام :
ایمیل آئی ڈی :
* ٹیکس :
سینڈ

Gallery

تصویر

فلم

شیخ عیسی قاسم کی حمایت میں مظاہرے، کیمرے کی نظر سے

شیخ عیسی قاسم کی حمایت میں مظاہرے، کیمرے کی نظر سے