الوقت : اکیسویں صدی کو تقریبا سولہ برس گزر رہے ہیں، شاید میڈیا کی ادبیات میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے مفہوم کو استعمال کیا گیا ہے۔ 11 ستمبر کے واقعات کے بعد دہشت گردی کا مفہوم تبدیل ہو گیا بلکہ اس لفظ نے اپنا نیا مفہوم حاصل کر لیا۔ دو عشروں سے قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ البتہ قتل و غارت ہمیشہ سے رہا اور تاریخ قتل و غارت اور خوف و ہراس پیدا کرنے کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ نشانہ صرف گروہ اور افراد کو ہی نہیں بنایا جاتا بلکہ ان تمام افراد کو نشانہ بنایا جاتا جو اس کو دیکھتے۔ آج کی دہشت گردی میں جس کا سب سے زیادہ مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا دہشت گردی کی چوتھی لہر یعنی مذہبی دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہی سبب ہے کہ ماڈرن دہشت گردی سرحدوں کی قائل نہیں ہے اور کسی خاص حکومت کو نشانہ نہيں بناتی بلکہ رای عامہ کو متاثر کرتی ہیں۔ موجودہ وقت میں دنیا میں سات فیصد افراد براہ راست موت کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔
امریکا، دہشت گردی سے جنگ میں کامیاب کیوں نہیں ہوا؟
امریکا کی جانب سے دہشت گردی سے مقابلے کے دعوی کو تقریبا پندرہ سال کا وقت گزر رہا ہے۔ اس نے افغانستان کے خلاف جنگ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا علاقے میں اس بحران کا خاتمہ کیوں نہیں کرسکا۔ شاید اس کی دو دلیل ہو۔ پہلی دلیل امریکا کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طریقہ کار کی جانب پلٹتی ہے۔ امریکا نے دہشت گردی سے وسیع مقابلے کے لئے براہ راست جنگ کو اپنا پروگرام بنایا لیکن خرچیلی جنگ اور امریکی رای عامہ کے اس مسئلے میں پھنس جانے کے بعد اس نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے شروع کردیئے۔ در حقیقت داعش کو بھی ختم کرنے میں وہ کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوا کیونکہ داعش نے عراق اور شام میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد اس نے پوری دنیا خاص طور پر مغرب پر اپنے خودکش حملے شروع کر دیئے۔ یہ دہشت گردی کا کوئي دقیق علاج نہیں ہے۔ دوسری دلیل دہشت گردی کی بیخ کنی ہے، امریکا اس مسئلے پر بھی زیادہ توجہ نہیں دیتا۔ دہشت گردی کی کوئی بھی شکل اور کوئی بھی صورت، ایک خاص نظریہ کی حامل ہوتی ہے جس کے خاتمے کے بغیر دہشت گردی کی ظاہری شکل سے مقابلہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس طرح سے دہشت گردی کا نہ تو خاتمہ ہوگا اور نہ ہی دہشت گردی کا خوف ختم ہوگا۔ سعودی عرب سالانہ اربوں ڈالر، مشرقی ایشیا اور مشرق وسطی کے غیریب ترین علاقوں میں دینی مدارس کی تعمیر اور وہابیت کی مدد کے لئے خرچ کرتا ہے۔ یہ پیسے پیشرفتہ دہشت گردی کے افکار اور انسانی طاقت کو مضبوط کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ وہابیت کے بنیاد گزارعبد الوہاب کی کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوکر پوری دنیا میں تقسیم کیاجاتا ہے۔ ان کے باوجود امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کا دور، ماضی کی طرح سنہری دور نہیں ہے لیکن ہتھیاروں کے سمجھوتے کی وجہ سے اس نے کبھی بھی سعودی عرب پر دباؤ نہیں ڈالا۔
دہشت گردی، مشرق وسطی کا مستقل ٹروما
موجود وقت میں دہشت گردوں کے لئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ سائبر اسپیس کی بے نظیر دنیا ہے جو اراکین کو صف میں شامل کرنے اور کاروائی کے طریقہ کار جیسے تمام مسائل کو آسان بنا دیتی ہے۔ یقینی طور پر دہشت گردی مشرق وسطی سے ہی نہیں شروع ہوئی ہے لیکن اس نے مشرق وسطی کو اپنے چنگل میں جکڑ رکھا ہے۔ امریکا کے ایک ادارے نے حال ہی میں اپنی رپورٹ میں کہا کہ امریکا میں گزشتہ 15 سال کے دوران دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے 93 افراد تھے جن میں 45 افراد جہادی گروہوں اور 48 افراد نام نہاد دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں اسی طرح چارلٹون چرچ کے واقعے میں ہلاک ہوئے۔ اگر کہا جائے تو 2007 کا ناروے کا واقعہ یورپ کا سب سے بڑا قتل عام شمار ہوتا ہے جس میں 77 لوگ ہلاک ہوئے تھے لیکن دہشت گردی کو مشرق وسطی سے جوڑنے کی اصل دلیل یہ ہے کہ مشرق وسطی کے قتل و غارت کا بازار کافی عرصے سے گرم ہے اور خودکش حملے اس علاقے کے لوگوں کی عادت بن گئے ہیں۔
در حقیقیت گزشتہ دو عشروں میں مشرق وسطی، پاکستان اور افغانستان ماڈرن دہشت گردی کے مرکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے مشرق وسطی کے کچھ ممالک میں بدعنوانی اور بے قانوکی کی وجہ دہشت گرد گروہ پیدا ہو رہے ہیں۔