الوقت - علاقے میں امریکی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نئی پہل اور حملے کی ضرورت ہے اور اگر دفاعی منطق سے اس منصوبے کا مقابلہ کیا تو اس کا خرچہ تو زیادہ ہوگا ہی یہ منصوبہ پورے علاقے میں پھیل جائے گا۔
تسنیم نیوز ایجنسی نے بیروت پریس کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ میڈیا وار اور پروپیگینڈوں میں وسعت آنے سے پوری دنیا کی توجہ فلوجہ اور رقہ کی آزادی اور ان علاقوں کے مستقبل پر مرکوز ہے۔ فلوجہ کی مہم دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ شہر فوج کے محاصرے میں ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوج کی پانچ ہزار نفری پر مشتمل ٹیم فلوجہ پہنچ چکی ہے جبکہ چار ہزار قبائلی جوان بھی فلوجہ کی آزادی کے آپریشن میں شریک ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ شام میں ڈیموکریٹ پارٹی کے عسکریت پسند بھی 500 خصوصی امریکی فوجیوں کی مدد سے رقہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ ان کی پیشرفت کی رفتار بہت سست ہے۔ اگر چہ فلوجہ اور رقہ میں جنگ کی نوعیت میں فرق ہے لیکن در اصل دونوں ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ ان سب کے باوجود میڈیا خاص طور پر خلیج فارس کے بہت سے ممالک کے میڈیا دونوں جنگوں کی نوعیت کو الگ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس طرح سے یہ ذرائع ابلاغ رقہ کی جنگ کا خیر مقدم کر رہے ہیں جبکہ فلوجہ کی جنگ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر چہ سعودی عرب جنگ فلوجہ میں عراق کی حکومت کی حمایت کر رہا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سعودی عرب کا اصل موقف نہیں ہے۔ جس چيز سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا ہے وہ سعودی عرب کا وہ قول ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر رضاکار دستوں کو میدان جنگ سے ہٹا دیا جائے تو یہ پاک جنگ ہے اور اگر رضاکار دستے اس جنگ موجود رہیں گے یہ جنگ ناپاک رہے گی۔ در حقیقت یہ عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ 20 ہزار سے زیادہ اہل سنت و الجماعت کے لڑاکے رضاکار فورس میں شامل ہيں جبکہ ان میں چار ہزار کی تعداد صوبہ الانبار اور فلوجہ کے شہریوں کی ہے۔ یہ افراد انسداد دہشت گردی کی ٹیم کے ساتھ شہر فلوجہ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں۔ جنگ کے صحیح راستے پر جاری رہنے کی ایک دلیل یہ ہے کہ رضا کار فورس نے مشرقی فلوجہ کے کرمہ علاقے کو آزادی کرانے کے بعد اس شہر کی ذمہ داری بغداد آپریشنل کمان کور کرمہ میں سرگرم دوسرے گروہوں کے حوالے کر دیا۔ یہ مسئلہ مستقبل کی جنگوں میں بھی پیش آئے گا اور رضاکار فورس کے دستوں پر راستوں کو بند کرنے اور ان کا محاصرہ کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ براہ راست شہر میں داخل نہیں ہوتے مگر یہ فوج کو ان کی ضرورت ہو۔ امریکا کا اصل مقصد یہ ہے کہ رضاکار دستے جنگوں میں شرکت نہ کریں۔ امریکا اس طرح ظاہرکرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ جنگ در اصل اس کے فوجی مشیروں کے اشاروں پر چل رہی ہے۔
رقہ میں بھی جنگ کی صورتحال مختلف ہے۔ رقہ جنگ میں کرد اور کچھ اصل عرب قبائل ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ موضوع جایزے کے قابل ہے کہ تاکہ ہم کو پتا چلے کہ ہمارے سامنے جو جغرافیائی توسیع ہے۔ پہلی قامشلی سے عین العرب حتی عفرین تک ہے۔ اگر کرد عین العرب سے عفرین تک کے علاق کو اپنے قبضے میں کرنے میں کامیاب ہو گئے یہ ان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ ترک بھی اس مسئلے کی حساسیت سے واقف ہیں اور شاید امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا اصل سبب بھی یہی ہو سکتا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ دوسری توسیع، موصل، الانبار اور داعش سے آزاد ہونے والے علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقے آزادی کے بعد ان کے شہریوں کے حوالے کر دیئے گئے۔ یہ مسئلہ بھی امریکا کی حمایت سے انجام پایا۔
امریکا کی یہ کوشش ہے کہ رقہ میں بھی ایسا ہی کچھ ہو۔ یعنی رقہ کے آزاد ہونے والے علاقوں کو وہاں پر سرگرم گروہوں کے حوالے کر دیا جانا چاہئے تاکہ وہ ان علاقوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ خود ہی کریں۔ شام کے مشرقی علاقوں میں دیر الزور، میادین، بوکمال، حلب، ادلب اور کچھ ساحلی علاقوں کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ سے طرح سے ہمارے سامنے دو توسیع ہے۔ ایک ان علاقوں کی توسیع جو کردوں یا اہل سنت و الجماعت کے زیر کنٹرول ہوگا۔ امریکی اس مسئلے کو عراق، شام، لبنان، اردن، سعودی عرب اور خلیج فارس کے عرب ممالک میں رائج کرنا چاہتا ہے۔
کچھ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ بھی نوبت آ سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امریکیوں نے اس سے پروگرام بنا رکھے ہيں اور افسوس کہ عرب ممالک کے عوام آلہ کار بنے ہوئے ان کے پر آب و تاب مذہبی اور انقلابی نعروں پر بغیر کسی آگاہی کے علاقے کے تقسیم کے منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلوجہ اور رقہ کی جنگ ، علاقے کے مستقبل کے لئے بہت اہم ہے اسی لئے یہ خطرناک بھی ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ہم دفاعی منطق سے اس منصوبے کا مقابلہ کریں جس کے لئے وقت اور خرچے کی ضرورت ہے۔ اس منصوبے سے مقابلہ کرنے کے لئے نئی پہل اور حملے کی ضرورت ہے۔