الوقت - مسجد الاقصی کا تاریخی دروازہ الرحمۃ ویران ہو گیا ہے۔ اس کی دیکھ بھال پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ قبلہ اول کا یہ وہ تاريخی دروازہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قبتہ الصخرہ سے بھی پہلے بنایا گیا۔
واضح رہے کہ قبۃ الصخرہ مسجد الاقصی کے قریب ایک تاریخی چٹان کے اوپری سنہری گنبد والی عمارت ہے جس کا شمار گزشتہ 13 صدی سے دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔ باب الرحمہ ا سے ایک سال پرانا ہے۔ در اصل یہ ایک تاریخی قبرستان ہے جو 14 سو سال پرانا ہے۔ باب الرحمہ مسجد الاقصی کے 12 دروازوں میں سے ایک بڑا دروازہ ہے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ اموی اور عباسی خلفاء نے اس دروازے کی توسیع کی اور اس کے عین اوپر ایک چبوترا تعمیر کیا جہاں امام غزالی طویل عرصے تک تصنیف و تالیف میں مصروف تھے ۔
رپورٹوں کے مطابق، امام غزالی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف احیاء العلوم کا ایک بڑا حصہ اسی چبوترے پر بیٹھ کر لکھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان دنوں قبلہ اول کے تاريخی دروازوں میں سے ایک باب الرحمہ اسرائلی پابندیوں کی وجہ سے فلسطینوں کی آمد و رفت کے لئے مکمل طور پر بند ہے لیکن یہ صیہونیوں کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
مورخین کے مطابق اسرائیلی قبضے سے قبل باب الرحمہ درس و تدریس کا اہم مرکز تھا جہاں حفظ قرآن کا اور ناظرہ قرآن کے ساتھ ساتھ فلسطینی طلبہ کے لئے پابند سے درس قرآن کا اہتمام کیا جاتا تھا مگر اب اس دروازے سے متصل دو بڑے ہال ویران ہو چکے ہیں۔ ان کی دیواریں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔
یہاں صرف صیہونیوں کو داخل ہونے اور ان کو مذہبی رسومات ادا کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ماضی میں یہ قبلہ اول کی سب سے بارونق جگہ سمجھی جاتی تھی لیکن آج یہاں سناٹا چھیا ہوا ہے۔ فلسطینی شہری یہاں جانے کے لئے ترس رہے ہیں۔ اس سے پہلے مارچ 2012 میں صیہونی حکومت کی بلدیہ نے مسجد الاقصی کے مشرق میں واقع باب الرحمہ قبرستان کو ایک باغ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن مخالفت کے سبب یہ منصوبہ ملتوی ہو گیا تھا۔
اس کے باوجود بھی دائیں بازو ک جماعتیں اسرائیلی عدلیہ کی مدد سے اس منصوبے پر عمل در آمد کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے صیہونی بارہا فلسطینی مسلمانوں کے اس قبرستان میں داخل ہوئے اور قبرستان کی بے حرمتی کی۔